تشریح:
(جزافاً) کے معنی ہیں کہ اس کا کیل (ناپ) یا وزن متعین نہ ہوتا تھا۔ بلکہ ویسے ہی ایک ڈھیر کا سودا کرلیا جاتا تھا۔ اور پھر اسے ویسے ہی تولے بغیر اور قبضے میں لیے ڈھیر ہی کی شکل میں فروخت کردیا جاتا تھا۔ اسے بعض افراد نے جائز قرار دیا ہے۔ لیکن احادیث کے الفاظ سے تو یہی معلوم ہوتا ہے۔ کہ غلہ ناپ تول کرلیا جائے۔ ڈھیری کی شکل میں اسے قبضے میں لئے بغیر ناپ تول کے بغیر بیچنا جائز نہیں۔ اور ڈھیری کا قبضہ یہی ہے۔ کہ اسے دوسری جگہ منتقل کردیا جائے۔