تشریح:
فائدہ: بدوی بادیہ سے ہے کہ خانہ بدوش کو کہتے ہیں۔ جو ایک جگہ کے ساکن نہیں ہوتے۔ بلکہ مسلسل ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ اگر کوئی بدوی سمجھ دار اور عدول ہو تو فی نفسہ اس کی گواہی معبتر ہوگی۔ خود رسول اللہ ﷺ نے رمضان کے چاند کی رویئت میں بدوی کی شہادت قبول فرمائی۔ (أبودود، الصوم، باب في شھادة الواحد علی رؤیة ھلال رمضان) اس حدیث سے جو یہ بات سمجھائی گئی ہے۔ وہ یہ ہے کہ بدوی عموما مستقل آبادیوں کے حالات عادات رسم ورواج اور طور طریقوں سے واقف نہیں ہوتے۔ نیز بڑے سادہ لوح ہوتے ہیں۔ اس لئے مشاہدے میں انھیں غلطی لگنے یاعدم فہم کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اس لئے کسی بستی یا شہر کے رہنے والے کے معاملے میں ان کی گواہی پراعتراض واقع ہوگا۔ اس سبب سے اس کی گواہی قبول نہیں کی جا سکتی۔ وہ معاملات جن کا فہم اہل بادیہ کے لئے آسان ہے۔ اس میں ان کی گواہی ہرطرح معتبر ہے۔ اس حدیث میں یہ بھی ثابت ہوا کہ کسی بھی معاملے میں گواہی تب معتبر ہوگی۔ جب اس معاملے کے عمومی فہم کی استعداد موجود ہو۔ کسی خالص فنی معاملے میں عام انسا نوں کی گواہی معتبر نہ ہوگی۔ جب تک وہ اس معاملے کا فہم نہ رکھتا ہو۔