تشریح:
1۔ اس حدیث سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ لگڑ بگڑ کا کھانا حلال ہے۔ کیونکہ اسے نبی کریمﷺ نے شکار قرا ر دیا ہے۔ یعنی جس کا شکارکرکے کھانا جائز ہے۔
2۔ دوسرا یہ معلوم ہوا کہ حالت احرام میں محرم اگر کسی جانور کا شکار کرلے گا تو اسے اس جانور کے مثل فدیہ ضروری ہوگا۔ اور یہ مثلیت ظاہری جسم کے ڈیل ڈول (قدوقامت) کے حساب سے ہوگی۔ نہ کہ قیمت کے اعتبارسے جیسے لگڑ بگڑ اور مینڈھا جسامت کے اعتبار سے ایک دوسرے کے مشابہ ہیں۔
3۔ لگڑ بھگڑ بھی ذوناب جانور ہے۔ اور ہر ذوناب درندہ حدیث کی رو سے حرام ہے۔ پھر اسے اس حدیث میں کیوں حلال قرار دیا گیا ہے۔ امام خطابی نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ کُلُّ ذِي نابٍ مِنَ السباعِ کے عموم سے اس کی تخصیص ہوگئی ہے۔ اور امام ابن قیم نے کہا ہے کہ لگڑ بگڑ (ضبع) بھی اگرچہ درندہ ہی ہے، لیکن ہردرندے میں حرمت کی دو وجہیں ہیں۔ ایک کچلیوں کا ہونا او ردوسرا عادی درندہ ہونا اور درندہ کا وصف کچلیاں ہونے کے مقابلے میں زیادہ اہم اور خاص ہے۔ اس لئے کہ دونوں وصف رکھنے والے جانوروں کے کھانے سے کھانے والے کو اندر بھی درندگی والی قوت آجاتی ہے۔ جیسے شیر۔ لومڑی۔ وغیرہ ہیں۔ اور لگڑ بگڑ کچلیاں والا تو ہے۔ لیکن اس میں درندگی والی وہ قوت نہیں ہے جو مذکورہ جانوروں میں ہے، اس لئے اس کو حلال قرار دیا گیا ہے۔ واللہ اعلم۔ (تفصیل کےلئے دیکھئے عون المعبود)