تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ بشری تقاضوں سے بالا نہ تھے۔ اس لیے سفری تکان کے باعث آرام کے لیےاترے۔
(2) اس کے باوجود نماز بروقت ادا کرنے کی فکر دامن گیر رہی اور بلال کو اس کام کے لیے پابند فرمایا۔ اور اس قسم کے عوارض کے موقع پر نماز کے لیے جاگنے کا اہتمام کر کے سونا چاہیے۔
(3) انسان کو کسی تقصیر پر معذرت کرنی پڑے تو خوبصورت انداز میں کرے۔
(4) مذکورہ اسباب کی وجہ سے کسی جگہ کومنحوس اور بے برکت سمجھنا جائز ہے جیسے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس جگہ کو چھوڑ دیا تھا۔
(5) قضا نمازوں کے لیے جماعت کی صورت میں اذان کہنا بھی مستحب ہے۔ پھر تکبیر کہی جائے اور جماعت کرائی جائے۔ لیکن اذان کا یہ استحاب صرف سفر اور بے آبادعلاقوں ہی کے لیے ہے۔ عام مسجدوں میں (جوآبادیوں میں ہوں) وہاں بےوقت اذان دینا عوام کے لیے اضطراب اور تشویش کا باعث ہوگا۔ ہاں اگر وہاں آہستگی سے مسجد کی چاردیواری کےاندر اس طرح اذان دے لی جائے کہ باہر آواز نہ جائے، تو وہاں بھی اس پرعمل کیا جا سکتا ہے۔
(6) سوتے رہ جانے یا بھول جانے کا قصور معاف ہے۔ اور ایسی نمازوں کےلیے وقت وہی ہےجب جاگے یا یاد آئے اور جب وقت نکل ہی گیا توشرعی ضرورت کےتحت قدرے تاخیر کرلینا بھی جائز ہے جیسے کہ نبی ﷺ نے اگلی وادی میں جاکر نماز پڑھی۔
(7) فجر کی سنتیں دیگر سنتوں کےمقابلے میں زیادہ اہم ہیں کہ سفر میں بھی نہیں چھوڑی گئیں۔