تشریح:
(1) یہ روایت سنداً تو صحیح ہے، علاوہ ازیں دیگر صحیح روایات میں بھی یہ واقعہ بیان ہوا ہے۔ لیکن اس روایت میں اس کے راوی خالد بن سمیر کو بیان واقعہ میں تین مقامات پروہم ہوا ہے۔ (الف) کہ رسول اللہ ﷺ نے جیش الامراء روانہ فرمایا۔ (ب) جوتم میں سے سنتیں پڑھنا چاہتا ہے، پڑھ لے۔ (ج) اس کےساتھ اس نماز کی قضا بھی دے۔ گویا اس لشکر کو’’جیش الامراء روانہ، قرار دینا، صبح کی سنتوں کے بارے میں اختیار دینا اور اسی طرح دوسرے دن فجر کی نماز کےساتھ اس فجر کی نماز کی قضاء دینے کا حکم یہ تینوں باتیں صحیح نہیں ہیں۔ ان اوہام سے قطع نظر یہ روایت صحیح ہے۔ انہی اوہام کی وجہ سےغالباً شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے شاذ قرار دیا ہے۔ اس لیے فوت شدہ نماز جاگ آنے یا یاد آنے ہی پر ادا کی جانی چاہیے جیسا کہ صحیح احادیث میں بیان ہوا ہے۔ اسے اگلے دن کی اسی نماز تک مؤخرکرنا درست نہیں۔
(2) (جیش الامراء) سے بالعموم غزوہ موتہ مراد لیا گیا ہے جبکہ صاحب بذل المجہود مولانا خلیل احمد سہارنپوری کا خیال ہے کہ غزوہ خیبر بھی (جیش الامراء) ہوسکتا ہے۔
(3) دنیا کے کسی کام میں مشغولیت کی وجہ سے نماز میں تاخیر کر دینا بہت بڑی نحوست ہے اور اپنی جان پرایک بھاری ظلم، کیونکہ رسول اللہ ﷺ اس موقع پر درد شقیقہ کےعارضہ میں مبتلا تھے تو پہلے حضرت ابوبکر پھر حضرت عمر اور ان کے بعد حضرت علی کو جھنڈا دیا گیا تھا۔ واللہ أعلم.