تشریح:
یہ حدیث جوامع الکلم کی ایک عمدہ مثال ہے۔ علمائے اسلام کے ایک طبقے نے اسے بیان کی طرح قرار دیا ہے اور دوسرے نے اس سے مذمت کے معنی سمجھے ہیں جبکہ حقیقت ان دونوں کے بین بین ہے۔ گفتگو خطاب یا تحریر میں بیان اپنے عرفی اور اصطلاحی ہر دو معانی میں ایک صاحب علم کے لیے انتہائی اہم عمدہ اور مطلوب صفت ہے۔ تمام انبیائے کرام اس وصف سے موصوف تھے اور یہی وجہ تھی کہ لوگ انہیں ساحر اور ان کے مضامین دعوت کو سحر کہتے تھے کہ اس میں ان کے لئے انکار کو کوئی چارا نہ تھا۔ اور یہی معاملہ وارثین انبیاء علمائے کرام کا ہے کہ وہ اس وصف کو دعوت دین میں استعمال کریں اور نوآموز اس کی بخوبی مشق بہم پہنچائیں۔ لیکن جہاں معاملہ حد سے بڑھ کر محض مبالغہ آرائی زبان آوری اور حقائق کو مسخ کرنے اور الفاظ سے کھیلنے کا ہو تو، ناجائز اور قابل مذمت ہے جیسے اوپر کی حدیث میں گزرا ہے۔