تشریح:
یہ روایت سندا ضعیف ہے۔ البتہ اگر کبھی اتفا قاً ان لوگوں کے پیچھے نماز پڑھنی پڑ جائے تو نماز ہو جائے گی بشرط یہ ہے کہ موحد مسلمان ہو۔ قاعدہ یہ ہے کہ جس کی اپنی نماز صحیح ہے اس کی امامت بھی صحیح ہے۔ تاریخ بخاری میں ہے عبد الکریم کہتے ہیں۔ کہ میں نے دس اصحاب محمد رضوان اللہ عنہم اجمعین کو پایا جو ظالم حکام کے پیچھے نمازیں پڑھتے تھے۔ کتاب الصلاوۃ کے ہی گزشتہ باب 10۔ إذا أخر الإمام الصلاة عن الوقت میں بیان ہوا کہ رسول اللہ نے فرمایا! تیرا کیا حال ہوگا جب تم پر ایسے حکام ہوں گے۔ جو نماز کو بے وقت کر کے پڑھیں گے۔ یا فرمایا نمازوں کو ان کے اوقاتوں سے مار دیں گے۔ کہا تو آپﷺ کیا فرماتے ہیں۔؟ آپ ﷺ نے فرمایا! نماز اپنے وقت پر پڑھنا اگر ان کے ساتھ پائو تو ان کے ساتھ بھی پڑھ لینا یہ تمہارے لئے نفل ہوگی۔ اس حدیث میں آپ نے ان ظالموں کے پیچھے نماز کی اجازت دی ہے۔ اور بتایا کہ یہ نفل ہوگی۔ (صحیح مسلم۔حدیث 648۔سنن أبي داود۔ حدیث: 431) رہا کسی انسان کا بد عقیدہ ہونا۔ اگر کوئی امام ایسا ہو جو اعلانیہ شرک اکبر کا مرتکب ہوتا ہو۔ یعنی غیر اللہ کی ندا اور غیر اللہ سے استغاثہ وغیرہ کو مباح جانتا ہو۔ تو اس کے پیچھے نماز کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ اگر کہیں کوئی اضطراری صورت پیش آجائے۔ تو اعادہ ضروری ہوگا۔ لیکن اگر کوئی پوشیدہ طور پر ایسے عقائد رکھتا ہو۔ تو ہم اس کی کرید کے مکلف نہیں ہیں۔ ان کے پیچھےنماز درست ہے۔ فقہی اختلافات وترجیحات قابل برداشت ہیں۔ اگر کوئی عدم اعتدال کا مرتکب ہو اور جلدی جلدی نماز پڑھاتا ہو۔ کہ ارکان کی ادائیگی مشکل ہوتی ہو تو اس سے بھی پرہیز کرنا چاہیے۔ اس کی مثال ظالم حکام کی سی ہے۔ اور اس کا حل ذکر ہوچکا ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: إسناده ضعيف؛ لانقطاعه. قال المنذري: هذا منقطع، مكحول لم يسمع من أبي هريرة . وكذا قال الدارقطني والبيهقي وغيرهم. وقال أبو أحمد الحاكم: حديث منكر . وقال العقيلي والدارقطني: ليس في هذا المتن إسناد يثبت ) . إسناده: حدثنا أحمد بن صالح: ثنا ابن وهب: حدثني معاوية بن صالح عن العلاء بن الحارث عن مكحول.
قلت: وهذا إسناد ضعيف، رجاله ثقات رجال الصحيح ؛ لكنه منقطع بين مكحول وأبي هريرة. قال المنذري في مختصره (رقم 2422) : هذا منقطع؛ مكحول لم يسمع من أبي هريرة . وكذا قال غيره كما يأتي؛ وهوأمر متفق عليه بينهم. والحديث أخرجه المصنف في الجهاد ... بهذا الإسناد أتم منه؛ وسيأتي إن شاء الله تعالى (رقم 438) . ومن طريقه: أخرجه البيهقي (3/121) . وأخرجه الدارقطني (ص 185) من طريق أخرى عن ابن وهب... به، وقال: مكحول لم يسمع من أبي هريرة، ومن دونه ثقات . وأخرجه (ص 184) من طريق أخرى عن مكحول... به. وله عنده (ص 184) طريق أخرى عن أبى هريرة: أخرجه عن عبد الله بن محمد بن يحيى بن عروة عن هشام بن عروة عن أبي صالح السّمان عنه... به نحوه؛ ولفظه: سيليكم بعدي ولاة، فيليكم البر بِبِرِّه، والفاجر بفجوره، فاسمعوا لهم وأطيعوا فيما وافق الحق، وصلوا وراءهم، فإن أحسنوا فلكم ولهم، وإن أساؤوا فلكم وعليهم . وهو عند ابن حبان في الضعفاء (من هذا الوجه- كما في التلخيص (4/331) للحافظ-، وقال: وعبد اللّه متروك . وفي الباب عن علي بن أبي طالب، وواثلة بن الأسقع، وعبد اللّه بن مسعود، وأبي الدرداء، وابن عمر: أخرجها كلها الدا قطنيُ (ص 184- 185) ، ثم قال: وليس فيها شيء يثبت . وقال الحافظ: طرقه كلها واهية جداً . قال العقيلي: ليس في هذا المتن إسناد يثبت . ونقل ابن الجوزي عن أحمد: أنه سئل عنه؟ فقال: ما سمعنا بهذا . وللبيهقي في هذا الباب أحاديث كلها ضعيفة غاية الضعف، وأصح ما فيه حديث مكحول عن أبي هريرة- على إرساله-. وقال أبو أحمد الحاكم: هذا حديث منكر . ونقل ابن التركماني عن البيهقي، أنه قال في المعرفة : إسناده صحيح؛ إلا أن فيه إرسالا بين مكحول وأبي هريرة .
قلت: ومن رام تحقيق الكلام على طرق الحديث، والوقوف على عللها، وأقوال العلماء فيها مفصلا؛ فليراجعها في نصب الراية (2/26- 29) ، وكتابي إرواء الغليل (527) .