تشریح:
1۔ اس سے قبل کے باب میں وارد حدیث سے بعض لوگوں نے یہ استدلال کیا ہے کہ نماز میں لاٹھی کا سہارا لینا درست نہیں۔ تو یہ باب اور حدیث اس مسئلے کو واضح کرتی ہے۔
2۔ صالحین کی زیارت اور ان کی صحبت میسر آنا بہت بڑی غنیمت ہے۔
3۔ معروف مشہور ہے کہ انسان کا مظہر اس کے باطن کا عکاس ہوتا ہے۔ لہذا ظاہر ی منظر سادہ اور سنت کے مطابق ہوناچاہیے۔ اصحاب مجلس پر اس کا بہت عمدہ اثر ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ بالخصوص وفود کے استقبال میں اس کا خاص اہتمام فرمایا کرتے تھے۔
4۔ عذر کی بنا پر نماز میں سہارا لینا جائز ہے۔ اور سہارے سے کھڑے ہونا بیٹھنے کی نسبت زیادہ افضل ہے۔
5۔ بطور عادت یا فیشن کے ہر وقت ننگے سررہنا حتیٰ کہ مسقتل طور پر نماز بھی ننگے سر پڑھنا صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کے طریقے کے خلاف ہے۔
الحکم التفصیلی:
(قلت: حديث صحيح، وقال الحاكم: صحيح على شرط الشيخين ! ووافقه الذهبي!) . إسناده: حدثنا عبد السلام بن عبد الرحمن الوَابِصِيُّ: ثنا أبي عن شيبان عن حُصَيْنِ بن عبد الرحمن عن هلال بن يِسَاف. قلت: وهذا إسناد رجاله ثقات؛ غير عبد الرحمن- وهو ابن صخر الوابصي-؛ فإنه مجهول، كما قال الحافظ في التقريب ، لكنه قد توبع كما يأتي. والحديث أخرجه الحاكم (1/264- 265) ، وعنه البيهقي (2/288) من طريق عبيد الله بن موسى: أبَنا شيبان بن عبد الرحمن... به. وقال الحاكم: صحيح على شرط الشيخين ! ووافاته الذهبي! قلت: هلال بن يِساف- بكسر التحتية-؛ إنما أخرج له البخاري تعليقاً! فالحديث صحيح على شرط مسلم وحده.