مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1557.
یونس نے زہری سے یہ حدیث روایت کرتے ہوئے کہا کہ سیدنا ابوبکر ؓ نے فرمایا مال کا حق ہے کہ زکوٰۃ ادا کی جائے۔ اور اس روایت میں لفظ «عقالا» ”رسی“ بیان کیا۔
تشریح:
(1) رسول اللہ ﷺ کی وفات حقیقی وفات تھی۔’’پردہ پوشی‘‘ والی بات صحابہ کرام ؓ میں کہیں بھی سمجھی سمجھائی نہیں گئی‘ جیسے کہ آج کل لوگ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ (2) قبائل عرب تین طرح سے کافر ہوئےتھے۔ ایک وہ لوگ تھے جو اسلام سے مرتد ہو کر مسلمہ کذاب کے پیرو ہو گئےتھے۔ دوسرے وہ تھے جنہوں نے نماز‘ زکوۃ اور دیگر احکام شریعت سے سرتابی کی تھی۔ اور تیسرے وہ تھے جنہوں نے صرف زکوۃ کی ادائیگی سے انکار کیا تھا۔ ان کا یہ انکار بھی کفر ہی کہلایا تھا۔ (تفصیل آگے آرہی ہے۔) (3) اسلامی حکومت اور معاشرے میں نماز اور زکوۃ لازم وملزوم ہیں اور زکوۃ کے انکارپر جنگ ہو سکتی ہے۔ (4) دین میں فہم و بصیرت کے اعتبار سے صحابہ کرام ؓ میں بھی فرق تھا اور حضرت ابوبکر سب سے فائق تھے۔ (5) جہاد کی حقیقت‘ اشاعت توحید وسنت اور غلبہ دین کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ (6) حکومت اسلامیہ میں رعیت کی جان ومال اور آبرو ہر طرح سے محفوظ ہوتی ہے اور رہنی چاہیے۔ (7) حکومت اسلامیہ بجا طور پر یہ حق رکھتی ہے کہ اپنی رعایا سے حقوق و فرائض اسلام کی پابندی کا مطالبہ کرے اور اس مقصد کے لیے قتال بھی جائز ہے۔ (8) حدیث میں وارد لفظ: [عناقا] ’’بکری کے بچے‘‘ سے محدثین یہ استدلال کرتے ہیں کہ جانوروں کے بچے ماؤں کے تابع ہیں جیسے کہ بعض صورتوں میں مال مستفاد کا حکم ہے۔ (9) اختلاف روایت کو بالاسانید بیان کرنا دلیل ہے کہ محدثین کرام نقل احادیث میں غایت درجہ محتاط اور امین تھے۔ رافضیوں کے کچھ شبہات اور ان کا جواب: رافضیوں کا اتہام ہے کہ حضرت ابوبکر پہلے وہ شخص ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو قیدی بنایا حالانکہ یہ لوگ‘ جن سے قتال کیا گیا‘ اصحاب تاویل تھے (ان کے زعم میں زکوۃ کا ایک خاص مفہوم تھا ) ان کا خیال تھا کہ قرآن کریم کا یہ ارشاد: ﴿خُذ مِن أَموٰلِهِم صَدَقَةً تُطَهِّرُهُم وَتُزَكّيهِم بِها وَصَلِّ عَلَيهِم إِنَّ صَلوٰتَكَ سَكَنٌ لَهُم وَاللَّهُ سَميعٌ عَليمٌ﴾(سورہ توبہ:103) ’’آپ ﷺان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجئے، جس کے ذریعہ سے آپ ان کو پاک صاف کردیں اور ان کے لیے دعا کیجئے، بلاشبہ آپ کی دعا ان کے لیے موجب اطمینان ہے اور اللہ تعالیٰ خوب سنتا ہے خوب جانتا ہے۔‘‘ یہ خطاب خاص ہے۔ اس کا تعلق صرف رسول اللہ ﷺ سے ہے‘ کوئی اور اس کا مخاطب یا اس میں شریک نہیں ہے۔ اس میں ایسی شرطیں ہیں جو کسی اور میں نہیں ہیں‘ یعنی یہ تطہیر و تزکیہ اور صاحب صدقہ کے لیے صلاۃ ‘ یعنی دعا۔ یہ امور صرف نبی کریم ﷺ کے ساتھ خاس ہیں۔ اور جب ذہنوں میں اس قسم کے شبہات موجود ہوں تو ایسے لوگوں کو معذور جاننا چاہیے ان پر تلوار اٹھانا کسی طور روا نہیں۔ ان لوگوں کے خیال میں ان سے قتال ظلم وزیادتی تھا۔ (جواب) حقیقت یہ ہے کہ ان (رافضیوں) کا دین میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ ان کا کل سرمایہ بہتان‘ تکذیب اور صحابہ کرام کی عیب چینی ہے۔ اور یہ کھلی حقیقت ہے کہ مرتدین کئی طرح کے تھے۔ ایک وہ تھے جنہوں نے سرے سے اسلام ہی کا انکار کیا تھا اور نبوت مسیلمہ کذاب یا کسی اور مدعی نبوت کی دعوت دی تھی۔ دوسرے وہ تھے جنہوں نے نماز اور زکوۃ چھوڑتے ہوئے شریعت کا انکار کیا۔ انہی لوگوں کو صحابہ نے کافر کہا اور اسی بنا پر حضرت ابوبکر نے ان کی اولادوں کو قیدی بنایا اور اس میں صحابہ کرام کی کثیر تعداد ان کی مؤیدومعاون تھی۔ اسی موقع پر ایک لونڈی حضرت علی المرتضیٰ کو ملی تھی جو کہ بنی حنیفہ کے قبیلہ سے تھی‘ اس سے ان کی اولاد بھی ہوئی۔ محمد بن حنیفہ حضرت علی کے فرزند گرامی قدر اسی لونڈی سےہیں......... (البتہ اواخر دور صحابہ میں ان کا یہ اجماع ہوگیا تھا کہ مرتدین کو قیدی نہ بنایا جائے۔) تیسرے وہ لوگ تھے جنہوں نے صرف زکوۃ کا انکار کیا تھا‘ علاوہ ازیں باقی امور دین میں وہ اس پر پوری طرح کار بند رہے تھے۔ یہ لوگ ب ’’باغی‘‘ تھے۔ ان میں سے کسی کو بھی انفرادی طور پر ’’کافر‘‘ نہیں کہا گیا‘ اگرچہ لفظ ارتداد اور مرتد ان پر بولا گیا ہے کیونکہ انکار زکوۃ و حقوق دین میں یہ دوسروں کے مشابہ ہو گئے تھے۔اور لغوی اعتبار سے جو شخص ایک عمل کرتا ہو پھر اس سے انکار کر دے تو و ہ اس سے ’’مرتد‘‘ ہی ہوتا ہے۔ چونکہ ان لوگوں نے اطاعت سےسرتابی کی اور حق اسلام کا انکار کیا اس وجہ سے مدح وثنا کا لفظ ان سے چھین گیا اور ایک برا لقب ان کے حصے میں آیا۔ رہے یہ شبہات کہ (خُذْ مِنْ أَموالِھم ........) کا خطاب رسول اللہ ﷺ سے خاص ہے تومعلوم ہونا چاہیے کہ کتاب اللہ کے خطاب تین طرح کے ہیں: ایک عام خطاب‘ مثلاً: ﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا قُمتُم إِلَى الصَّلوٰةِ فَاغسِلوا وُجوهَكُم.......﴾(المائدہ :6) ’’اے ایمان والو! جب تم نماز کے لئے اٹھو تو اپنے منہ کو دھو لو........‘‘ دوسرا وہ جو رسول اللہ ﷺ سے مخصوص ہوتا ہے‘ دوسروں کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ایسے خطابات میں اوروں کی شراکت کا شبہ صریح الفاظ سے ختم کر دیا جاتا ہے‘ مثلاً: ﴿وَمِنَ الَّيلِ فَتَهَجَّد بِهِ نافِلَةً لَكَ....﴾(بنی اسرائیل :79) ’’رات کے کچھ حصے میں تہجد کی نماز میں قرآن کی تلاوت کریں یہ زیادتی آپ کے لئے ہے۔‘‘ دوسری جگہ نکاح کے مسئلہ میں ہے: ﴿خالِصَةً لَكَ مِن دونِ المُؤمِنينَ﴾ (الأحزاب:50) ’’(اگر کوئی خاتون اپنے آپ کو نبی کو بخش دے تو نبی کا اس سے نکاح کرنا جائز ہے)....... یہ خاص طور پر صرف تیرے لئے ہی ہے اور مومنوں کے لئے نہیں۔‘‘ خطاب کی تیسری نوع وہ ہے جس میں مخاطب تو رسول اللہ ﷺ کو کیا ہوتا ہے مگر مراد آپ اور آپ کی امت دونوں ہی ہوتے ہیں۔ آپ کا ذکر مبارک اس لیے ہوتا ہے کہ آپ داعی الی اللہ ہیں۔ احکام الہی کے مبین ہیں۔ اس میں امت کو ہدایت ہوتی ہے کہ جس طرح آپ ﷺ کر کے دکھائیں اسی طرح کریں‘ مثلاً: ﴿أَقِمِ الصَّلوٰةَ لِدُلوكِ الشَّمسِ إِلىٰ غَسَقِ الَّيلِ ﴾(بنی اسرائیل :78) ’’ نماز کو قائم کریں آفتاب کے ڈھلنے سے لے کر رات کی تاریکی تک‘‘ اور ﴿فَإِذا قَرَأتَ القُرءانَ فَاستَعِذ بِاللَّهِ ﴾(النحل :98) ’’جب آپ قرآن پڑھنے لگیں تو اللہ کی پناہ اختیار کیا کریں۔‘‘ زیر بحث مسئلہ اور خطاب کہ (خُذْ مِن أَموالِھم ........) اسی آخری نوع سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ نبی ﷺ سے مخصوص نہیں بلکہ آپ کے ساتھ آپ کی امت کے خلفاء و امراء بھی اس میں شریک ہیں...... رہا مسئلہ تطہیر و تزکیہ اور صاحب زکوۃ کے لیے دعا کا.... تو یہ ایک عام عمل ہے۔ کوئی بھی مخلص مسلمان اللہ اور اس کےرسول کی اطاعت کرکے یہ مقام و مرتبہ حاصل کر سکتا ہے۔ اور تمام اجور و ثواب جن کا آپ کے زمانے میں وعدہ فرمایا گیا ہے وہ قیامت تک کے لیے جاری ہیں۔ ان میں کسی قسم کا انقطاع نہیں۔ (ماخوذ از نیل الاوطار:136/4)
نماز اورز کو ۃ دین کے ایسے رکن ہیں جن کا ہر دور اور ہر مذہب میں آسانی تعلیمات کے پیروکاروں کوحکم دیا گیا ہے۔ گویا یہ دونوں فریقے ایسے ہیں جو ہر نبی کی امت پر عائد ہوتے رہے ہیں اور دین اسلام نے بھی زکوۃ کی اس اہمیت کو نہ صرف برقرار رکھا بلکہ اس میں مزید اضافہ کیا اور اسے اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں تیسرا رکن قرار دیا۔ قرآن مجید میں نماز کی اقامت اور زکوۃ کی ادائیگی کا حکم عموما ساتھ ساتھ ہے۔ دو درجن سے زائد مقامات پر قرآن کریم نے(اقيمو الصلاة) کے ساتھ (واتوا الزكوة) کا حکم دیا ہے۔ قرآن مجید کے اس اسلوب بیان سے واضح ہے کہ دین میں جتنی اہمیت نماز کی ہے اتنی ہی زکوة کی ہے۔ ان دونوں میں بایں طور تفریق کرنے والا کہ ایک پر عمل کرے اور دوسرے پرنہ کرے’ سرے سے ان کا عامل نہیں سمجھا جائے گا۔ بلکہ جس طرح ترک نماز انسان کو کفر تک پہنچا دیتا ہے اسی طرح زکوة بھی شریعت میں اتنا ہی مقام رکھتی ہے کہ اس کی ادائیگی سے انکار اعراض اور فرار مسلمانی کے زمرے سے نکال دینے کا باعث بن جاتا ہے۔ زکوة کی فرضیت مشہور قول کے مطابق ہجرت کےدوسرے سال ہوئی۔
لغوی اعتبار سے زکوة کے ایک معنی بڑھوتری اور اضافے کے اور دوسرے معنی پاک وصاف ہونے کے ہیں ۔ شرعی اصطلاح کے مطابق زکوة میں دونوں ہی مفہوم پائے جاتے ہیں ۔ زکوة کی ادا گی سےبقیہ مال پاک صاف ہوجاتا ہے اور عدم ادا ئیگی سے اس میں غرباء و مساکین کاحق شامل رہتا ہے جس سے بقیہ مال ناپاک ہو جاتا ہے۔ جیسے کی جائز اور حلال چیز میں ناجائز اور حرام چیز مل جائے تو وہ جائز اور حلال چیز کو بھی حرام کر دیتی ہے۔ نبیﷺ نے فرمایا: اللہ نے زکوۃ اسی لیے فرض کی ہے کہ وہ تمہارے بقیہ مال کو پاک کر دے۔“ (سنن ابی داود، الزكوة، باب في حقوق المال حديث: ۱۲۹۴) قرآن مجید میں بھی یہ بات بیان کی گئی ہے:) خذمن اموالهم صدقة تطهرهم وتزكيهم بها((التوبة :103)اے پیغمبر!) ان کے بالوں سے صدقہ لے کر اس کے ذریعے سے ان کی تطہیر اوران کا تزکیہ کردیں‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ زکوة وصدقات سے انسان کو طہارت و پاکیزگی حاصل ہوتی ہے۔ طہارت کس چیز سے؟ گناہوں سے اور اخلاق رزیلہ سے۔ مال کی زیادہ محبت انسان کو خودغرض ’ظالم متکبر’بخیل بد دیانت وغیرہ بناتی ہے جبکہ زکوۃ مال کی شدید محبت کو کم کر کے اسے اعتدال پر لاتی ہے اور انسان میں رحم و کرم ہمدردی واخوت ایثار و قربانی اورفضل واحسان کے جذبات پیدا کرتی ہے اور انسان جب اللہ کے حکم پر زکوۃ ادا کرتا ہے تو اس سے یقینا اس کے گناہ بھی معاف ہو جاتے ہیں۔ (ان الحسنات يذهبن السيئات)( هود: ۱۳) بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں ۔‘‘
زکوة کے دوسرے معنی بڑھوتری اور اضافے کے ہیں ۔ زکوة ادا کرنے سے بظاہر تو مال میں کی واقع ہوتی نظر آتی ہے لیکن حقیقت میں اس سے اضافہ ہوتا ہے بعض دفعہ تو ظاہری اضافہ ہی اللہ تعالی فرما دیتا ہے ایسے لوگوں کے کاروبار میں ترقی ہو جاتی ہے۔ اور اگر ایسانہ بھی ہو تو مال میں معنوی برکت ضرور ہو جاتی ہے۔ معنوی برکت کا مطلب ہے خیر و سعادت کے کاموں کی زیادہ توفیق ملنا۔ اسی لیے نبی ﷺ نے فرمایا’’صدقے سے مال میں کمی نہیں ہوتی ۔‘‘(صحيح مسلم،البر،باب استحباب العفووالتواضع،حديث:2588)
مذکورہ گزارشات کے بعد زکوۃ وصدقات کے کچھ فضائل و برکات بیان کیے جاتے ہیں تا کہ قاری مسئلہ کی حقیقت کو کما حقہ سمجھ سکے حدیث قدسی ہے’’ اللہ تعالی فرماتا ہے (اے ابن آدم!) تو (میرےضرورت مند بندوں پر) خرچ کر میں (خزانہ غیب سے)تجھ کو دیتا رہوں گا۔“ (صحيح البخارى ، التوحيد،باب:35،حديث:7496)
اس کی بابت حضرت اسماءؓ سے روایت ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا( اللہ کی راہ میں کشادہ دلی سے) خرچ کرتی رہو اور گن گن کر مت رکھو ،اگر تم گن گن کر اور حساب کر کے خرچ کرو گی تو وہ بھی تمہیں حساب ہی سے دے گا اور دولت جوڑ جوڑ کر بند کر کے مت رکھو، ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہارے ساتھ ہی معاملہ کرے گا۔ اس لیے جتنی توفیق ہوفراخ دلی سےخرچ کرتی رہو۔‘‘(صحيح البخارى ، الهبة، باب: 5، حديث: 2591، والزكوة، باب: 22، حديث: 1434، وصحيح مسلم، الزكوة، باب الحث على الانفاق ، حديث: 1029)
صدقہ کی بابت نبیﷺ سے پوچھا گیا’ کون ساصدقہ اجر میں زیادہ بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’زیاده اجر وثواب والاصدقہ وہ ہے جو تندرستی کی حالت میں اس وقت کیا جائے جب انسان کے اندر دولت کی چاہت اور اسے اپنے پاس رکھنے کی حرص ہو اور اسے خرچ کی صورت میں محتاجی کا خطرہ اور روک رکھنے کی صورت میں دولت مندی کی امید ہو۔ ایسا نہ ہو کہ تم سوچنے اور ٹالتے رہو یہاں تک کہ تمہارا آخری وقت آجائے اور اس وقت تم مال کے بارے میں وصیت کرنے لگو کہ اتنا مال فلاں کو اور اتنا فلاں کو( اللہ کےلیے) دے دیا جائے‘درآں حالیکہ اس وقت وہ مال ( تمہاری ملکیت سے نکل کر) فلاں (وارثوں) کا ہو چکا ہو ۔(صحيح مسلم، الزكوة، باب بيان ان افضل الصدقة صدقة الصحيح الصحيح ، حديث: 1032)
ان فضائل و برکات کی پوری اہمیت اس وقت تک واضح نہیں ہوسکتی جب تک کہ دوسرا پہلو یعنی صدقات و خیرات سے پہلو تہی اور اعراض کی سخت وعید اور اس پر عذاب شدید کی تنبیہ سامنے نہ ہو۔ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے رسول اللہﷺ فرمایا: جسے اللہ تعالیٰ نے مال و دولت سے نوازا لیکن اس نے اس کی زکوة نہ دی تو وہ دولت قیامت کے دن اس کے لیے گنجے سانپ کی شکل میں بنادی جائے گی جس کی آنکھوں کے اوپر دو نقطے ہوں گے (یہ دونوں نشانیاں خت زہریلے سانپ کی ہیں) وہ سانپ اس کے گلے کا طوق بنا دیا جائے گا پھر وہ سانپ اپنی دونوں باچھوں سے اس کو پکڑ کر کھینچے گا اور کہے گا: میں تیرا بال ہوں تیرا خزانہ ہوں۔ یہ فرمانے کے بعد نبیﷺنے سورة آل عمران کی آیت (۱۸۰) تلاوت فرمائی وہ لوگ جو اللہ کے فضل وکرم سے حاصل کردہ مال میں بخل کرتے ہیں ( زکوۃ ادانہیں کرتے) یہ نہ سمجھیں کہ یہ ان کے حق میں بہتر ہے (نہیں) بلکہ یہ ان کے حق میں ( انجام کے لحاظ سے) بدتر ہے۔ یہ مال جس میں وہ بخل کرتے ہیں( اور اس کی زکوہ بھی نہیں نکالتے )قیامت کے دن ان کے گلے میں طوق بنا کے ڈال دیا جائے گا۔‘‘(صحيح البخارى ، الزكوة، باب اثم مانع الزكوة حديث:1403)
حضرت ابوذرسے روایت ہے’ رسول اللہﷺ نے فرمایا’’ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے‘ یا (فرمایا)قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں یا جیسے بھی آپ نے حلف اٹھایا (حلف کے الفاظ صحابی کوصحیح یاد نہیں رہے۔) جس آدمی کے پاس بھی کچھ اونٹ گائیں یا بکریاں ہوں وہ ان کا حق (زکوۃ) ادا نہ کرے تو اسے قیامت کے دن ان جانوروں سمیت لایا جائے گا یہ جانور دنیا کے مقابلے میں زیادہ قد آور اور زیادہ موٹے تاز ہ ہوں گے وہ اسے اپنے پیروں سے روند یں گے اور اپنے سینگوں سے ٹکریں مارتے ہوئے گزریں گے جب آخرتک سب گزر جائیں گے تو پہلے والے پھر اسی طرح اس پر لوٹائے جائیں گے حتیٰ کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ ہونے تک اس کے ساتھ یہی معاملہ جاری رہے گا ۔“((صحيح البخارى، الزكوة، باب زكوة البقر، حديث:1460)
قرآن کریم کی یہ آیت بھی انہی لوگوں کی وعید میں نازل ہوئی ہے جو اپنے سونے چاندی اوراپنے مال ودولت میں سےزکوۃ نہیں نکالتے۔( وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (34) يَوْمَ يُحْمَى عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ هَذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنْفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُونَ ) (التوبۃ:9/34۔35)’’اورجولوگ سوناچاندی بطورخزانہ جمع کرتےہیں اوراسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے توانہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنادیجیے۔ جس دن کہ ان کی دولت کودوزخ کی آگ میں تپایاجائے گا‘پھراس سےان کے ماتھے ‘ان کےپہلو اوران کی پیٹھیں داغی جائیں گی(اورکہاجائےگا)یہ ہے تمہاری وہ دولت جسےتم نے جوڑجوڑ کر رکھا تھا‘پس تم اپنی اس دولت اندوزی کاآج مزاچکھو۔‘‘لیکن اس وعیدسےوہ لوگ خارج ہیں جواپنے مال میں سےزکوۃ نکالتے اورصدقہ خیرات کرتےرہتےہیں۔
اس اخروی عقوبت کے علاوہ اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی اس قوم کو جو زکوۃ کی ادائیگی سے اعراض کرتی ہے امساک باراں اور قحط سالی جیسے ابتلاء سے دوچار کر دیتا ہے جیسا کہ فرمان نبوی ہے: "جو قوم زکوة سے انکار کرتی ہے اللہ تعالیٰ اسے بھوک اور قحط سالی میں مبتلا کر دیتا ہے۔“ ( (الطبرانى فى الأوسط، حديث: 4577-6788، وصحيح الترغيب للألبانى:1/467)
ایک دوسری روایت میں ہے جو لوگ اپنے مالوں کی زکوۃ ادا نہیں کرتے وہ باران رحمت سے محروم کر دیے جاتے ہیں اگر چوپائے نہ ہوں تو ان پر بھی بھی بارش کا نزول نہ ہو۔“ (سنن ابن ماجه ، باب العقوبات،حديث:4019، وحسنه الألبانى فى الصحيحة حديث:106-1/216-217)
یہاں یہ بات بھی ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اسلام کا مطالبہ صرف ز کوٰۃ ہی پرختم نہیں ہو جاتا بلکہ صاحب استطاعت کو ہر ضرورت کے موقع پر الله کی راہ میں خرچ کرتے رہنا چاہیے ۔ قرآن مجید نے اس لیے متعدد مقامات پر زکوۃ‘‘ کی بجائے انفاق‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے جو عام ہے اور زکوۃ اور دیگر صدقات دونوں کو محیط ہے۔(متقين)کی صفات میں بتایاگیا ہے (وممارزقنهم ينفقون) (البقرة:3)’’اوروہ ہمارےدیےہوئے مال میں سے انفاق (خرچ)کرتےہیں۔ ’’نیزفرمایا(يايها الذين امنوا انفقوامن طيبت ماكسبتم) (البقرة :467)’’اےایمان والو!اپنی پاکیزہ کمائی سے انفاق (خرچ )کرو۔‘‘
زکوۃ وصدقات دیتے وقت اس امر کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ ان کے اولین مستحق آدمی کے درجہ بدرجہ اپنے قرابت دار ہیں ۔ قرابت داروں کے حقوق کی ادائیگی جس میں غریب و بے سہارا افراد کی اعانت و دست گیری شامل ہے حقوق العباد میں دوسرے نمبر پر ہے۔ سب سے پہلے آدمی کے والدین ہیں اور دوسرے نمبر پر اس کے دیگر قریب ترین رشتہ دار۔ اگر انسان کے پاس اہل خانہ اور والدین کی کفالت کے بعد کچھ مال بچ رہے تو اسے درجہ بدرجہ اپنے قریب ترین رشتہ داروں پر خرچ کرنا چاہیے۔ اسے شریعت میں صلہ رحمی کہتے ہیں ۔ اس سے دوگنا اجر ملے گا ایک صلہ رحمی کا اور دوسراصدقے کا۔
زکوة اس مال میں سے نکالی جائے جس میں انسان کو ملکیت تامہ حاصل ہو ملکیت تامہ کا مطلب ہے کہ وہ مال اس کے دست تصرف میں ہو۔ اس کو جس طرح چاہے خرچ کرے اس میں کوئی رکاوٹ نہ ہو اس میں کسی اور کا کوئی دخل نہ ہو اور اس مال کے تجارتی فوائد میں وہ بلا شرکت غیرے ما لک ہو۔
مشترکہ (لمٹیڈ) کمپنیوں میں سے سب کے مجموعی مالوں میں سے بھی سب کی طرف سے زکوۃ نکالی جانی چاہے۔ (ملخص از کتاب ’’زکوٰۃ وعشر‘‘تالیف حافظ صلاح الدین یوسف، مطبوعہ دارالسلام)
یونس نے زہری سے یہ حدیث روایت کرتے ہوئے کہا کہ سیدنا ابوبکر ؓ نے فرمایا مال کا حق ہے کہ زکوٰۃ ادا کی جائے۔ اور اس روایت میں لفظ «عقالا» ”رسی“ بیان کیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) رسول اللہ ﷺ کی وفات حقیقی وفات تھی۔’’پردہ پوشی‘‘ والی بات صحابہ کرام ؓ میں کہیں بھی سمجھی سمجھائی نہیں گئی‘ جیسے کہ آج کل لوگ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ (2) قبائل عرب تین طرح سے کافر ہوئےتھے۔ ایک وہ لوگ تھے جو اسلام سے مرتد ہو کر مسلمہ کذاب کے پیرو ہو گئےتھے۔ دوسرے وہ تھے جنہوں نے نماز‘ زکوۃ اور دیگر احکام شریعت سے سرتابی کی تھی۔ اور تیسرے وہ تھے جنہوں نے صرف زکوۃ کی ادائیگی سے انکار کیا تھا۔ ان کا یہ انکار بھی کفر ہی کہلایا تھا۔ (تفصیل آگے آرہی ہے۔) (3) اسلامی حکومت اور معاشرے میں نماز اور زکوۃ لازم وملزوم ہیں اور زکوۃ کے انکارپر جنگ ہو سکتی ہے۔ (4) دین میں فہم و بصیرت کے اعتبار سے صحابہ کرام ؓ میں بھی فرق تھا اور حضرت ابوبکر سب سے فائق تھے۔ (5) جہاد کی حقیقت‘ اشاعت توحید وسنت اور غلبہ دین کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ (6) حکومت اسلامیہ میں رعیت کی جان ومال اور آبرو ہر طرح سے محفوظ ہوتی ہے اور رہنی چاہیے۔ (7) حکومت اسلامیہ بجا طور پر یہ حق رکھتی ہے کہ اپنی رعایا سے حقوق و فرائض اسلام کی پابندی کا مطالبہ کرے اور اس مقصد کے لیے قتال بھی جائز ہے۔ (8) حدیث میں وارد لفظ: [عناقا] ’’بکری کے بچے‘‘ سے محدثین یہ استدلال کرتے ہیں کہ جانوروں کے بچے ماؤں کے تابع ہیں جیسے کہ بعض صورتوں میں مال مستفاد کا حکم ہے۔ (9) اختلاف روایت کو بالاسانید بیان کرنا دلیل ہے کہ محدثین کرام نقل احادیث میں غایت درجہ محتاط اور امین تھے۔ رافضیوں کے کچھ شبہات اور ان کا جواب: رافضیوں کا اتہام ہے کہ حضرت ابوبکر پہلے وہ شخص ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو قیدی بنایا حالانکہ یہ لوگ‘ جن سے قتال کیا گیا‘ اصحاب تاویل تھے (ان کے زعم میں زکوۃ کا ایک خاص مفہوم تھا ) ان کا خیال تھا کہ قرآن کریم کا یہ ارشاد: ﴿خُذ مِن أَموٰلِهِم صَدَقَةً تُطَهِّرُهُم وَتُزَكّيهِم بِها وَصَلِّ عَلَيهِم إِنَّ صَلوٰتَكَ سَكَنٌ لَهُم وَاللَّهُ سَميعٌ عَليمٌ﴾(سورہ توبہ:103) ’’آپ ﷺان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجئے، جس کے ذریعہ سے آپ ان کو پاک صاف کردیں اور ان کے لیے دعا کیجئے، بلاشبہ آپ کی دعا ان کے لیے موجب اطمینان ہے اور اللہ تعالیٰ خوب سنتا ہے خوب جانتا ہے۔‘‘ یہ خطاب خاص ہے۔ اس کا تعلق صرف رسول اللہ ﷺ سے ہے‘ کوئی اور اس کا مخاطب یا اس میں شریک نہیں ہے۔ اس میں ایسی شرطیں ہیں جو کسی اور میں نہیں ہیں‘ یعنی یہ تطہیر و تزکیہ اور صاحب صدقہ کے لیے صلاۃ ‘ یعنی دعا۔ یہ امور صرف نبی کریم ﷺ کے ساتھ خاس ہیں۔ اور جب ذہنوں میں اس قسم کے شبہات موجود ہوں تو ایسے لوگوں کو معذور جاننا چاہیے ان پر تلوار اٹھانا کسی طور روا نہیں۔ ان لوگوں کے خیال میں ان سے قتال ظلم وزیادتی تھا۔ (جواب) حقیقت یہ ہے کہ ان (رافضیوں) کا دین میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ ان کا کل سرمایہ بہتان‘ تکذیب اور صحابہ کرام کی عیب چینی ہے۔ اور یہ کھلی حقیقت ہے کہ مرتدین کئی طرح کے تھے۔ ایک وہ تھے جنہوں نے سرے سے اسلام ہی کا انکار کیا تھا اور نبوت مسیلمہ کذاب یا کسی اور مدعی نبوت کی دعوت دی تھی۔ دوسرے وہ تھے جنہوں نے نماز اور زکوۃ چھوڑتے ہوئے شریعت کا انکار کیا۔ انہی لوگوں کو صحابہ نے کافر کہا اور اسی بنا پر حضرت ابوبکر نے ان کی اولادوں کو قیدی بنایا اور اس میں صحابہ کرام کی کثیر تعداد ان کی مؤیدومعاون تھی۔ اسی موقع پر ایک لونڈی حضرت علی المرتضیٰ کو ملی تھی جو کہ بنی حنیفہ کے قبیلہ سے تھی‘ اس سے ان کی اولاد بھی ہوئی۔ محمد بن حنیفہ حضرت علی کے فرزند گرامی قدر اسی لونڈی سےہیں......... (البتہ اواخر دور صحابہ میں ان کا یہ اجماع ہوگیا تھا کہ مرتدین کو قیدی نہ بنایا جائے۔) تیسرے وہ لوگ تھے جنہوں نے صرف زکوۃ کا انکار کیا تھا‘ علاوہ ازیں باقی امور دین میں وہ اس پر پوری طرح کار بند رہے تھے۔ یہ لوگ ب ’’باغی‘‘ تھے۔ ان میں سے کسی کو بھی انفرادی طور پر ’’کافر‘‘ نہیں کہا گیا‘ اگرچہ لفظ ارتداد اور مرتد ان پر بولا گیا ہے کیونکہ انکار زکوۃ و حقوق دین میں یہ دوسروں کے مشابہ ہو گئے تھے۔اور لغوی اعتبار سے جو شخص ایک عمل کرتا ہو پھر اس سے انکار کر دے تو و ہ اس سے ’’مرتد‘‘ ہی ہوتا ہے۔ چونکہ ان لوگوں نے اطاعت سےسرتابی کی اور حق اسلام کا انکار کیا اس وجہ سے مدح وثنا کا لفظ ان سے چھین گیا اور ایک برا لقب ان کے حصے میں آیا۔ رہے یہ شبہات کہ (خُذْ مِنْ أَموالِھم ........) کا خطاب رسول اللہ ﷺ سے خاص ہے تومعلوم ہونا چاہیے کہ کتاب اللہ کے خطاب تین طرح کے ہیں: ایک عام خطاب‘ مثلاً: ﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا إِذا قُمتُم إِلَى الصَّلوٰةِ فَاغسِلوا وُجوهَكُم.......﴾(المائدہ :6) ’’اے ایمان والو! جب تم نماز کے لئے اٹھو تو اپنے منہ کو دھو لو........‘‘ دوسرا وہ جو رسول اللہ ﷺ سے مخصوص ہوتا ہے‘ دوسروں کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ایسے خطابات میں اوروں کی شراکت کا شبہ صریح الفاظ سے ختم کر دیا جاتا ہے‘ مثلاً: ﴿وَمِنَ الَّيلِ فَتَهَجَّد بِهِ نافِلَةً لَكَ....﴾(بنی اسرائیل :79) ’’رات کے کچھ حصے میں تہجد کی نماز میں قرآن کی تلاوت کریں یہ زیادتی آپ کے لئے ہے۔‘‘ دوسری جگہ نکاح کے مسئلہ میں ہے: ﴿خالِصَةً لَكَ مِن دونِ المُؤمِنينَ﴾ (الأحزاب:50) ’’(اگر کوئی خاتون اپنے آپ کو نبی کو بخش دے تو نبی کا اس سے نکاح کرنا جائز ہے)....... یہ خاص طور پر صرف تیرے لئے ہی ہے اور مومنوں کے لئے نہیں۔‘‘ خطاب کی تیسری نوع وہ ہے جس میں مخاطب تو رسول اللہ ﷺ کو کیا ہوتا ہے مگر مراد آپ اور آپ کی امت دونوں ہی ہوتے ہیں۔ آپ کا ذکر مبارک اس لیے ہوتا ہے کہ آپ داعی الی اللہ ہیں۔ احکام الہی کے مبین ہیں۔ اس میں امت کو ہدایت ہوتی ہے کہ جس طرح آپ ﷺ کر کے دکھائیں اسی طرح کریں‘ مثلاً: ﴿أَقِمِ الصَّلوٰةَ لِدُلوكِ الشَّمسِ إِلىٰ غَسَقِ الَّيلِ ﴾(بنی اسرائیل :78) ’’ نماز کو قائم کریں آفتاب کے ڈھلنے سے لے کر رات کی تاریکی تک‘‘ اور ﴿فَإِذا قَرَأتَ القُرءانَ فَاستَعِذ بِاللَّهِ ﴾(النحل :98) ’’جب آپ قرآن پڑھنے لگیں تو اللہ کی پناہ اختیار کیا کریں۔‘‘ زیر بحث مسئلہ اور خطاب کہ (خُذْ مِن أَموالِھم ........) اسی آخری نوع سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ نبی ﷺ سے مخصوص نہیں بلکہ آپ کے ساتھ آپ کی امت کے خلفاء و امراء بھی اس میں شریک ہیں...... رہا مسئلہ تطہیر و تزکیہ اور صاحب زکوۃ کے لیے دعا کا.... تو یہ ایک عام عمل ہے۔ کوئی بھی مخلص مسلمان اللہ اور اس کےرسول کی اطاعت کرکے یہ مقام و مرتبہ حاصل کر سکتا ہے۔ اور تمام اجور و ثواب جن کا آپ کے زمانے میں وعدہ فرمایا گیا ہے وہ قیامت تک کے لیے جاری ہیں۔ ان میں کسی قسم کا انقطاع نہیں۔ (ماخوذ از نیل الاوطار:136/4)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اس سند سے بھی زہری سے یہی روایت مروی ہے اس میں ہے ابوبکر ؓ نے کہا: اس (اسلام) کا حق یہ ہے کہ زکاۃ ادا کریں اور اس میں «عقالا» کا لفظ آیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
This tradition has also been transmitted by Al Zuhri through a different chain of narrators. This version has “Abu Bakr (RA) said its due is the payment of zakat.” He used the word “a rope of a Camel”.