باب: گری پڑی چیز اٹھائے تو اس کا اعلان کرنے کا حکم
)
Abu-Daud:
The Book of Lost and Found Items
(Chapter: Finds)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1713.
ابن اسحٰق ، عمرو بن شعیب سے، وہ (عمرو) اپنے والد سے، وہ اپنے دادا (عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ) سے، وہ نبی کریم ﷺ سے یہی روایت کرتے ہیں تو ان کے لفظ ہیں «فاجمعها حتى يأتيها باغيها» ”اس کو اپنے مال کے ساتھ ملا لے حتیٰ کہ اس کا متلاشی آ جائے۔“
تشریح:
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده حسن .إسناده: حدثنا موسى بن إسماعيل: ثنا حماد. (ح) وحدثنا ابن العلاء: ثناابن إدريس عن ابن إسحاق عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده.
قلت: وهذا إسناد حسن، وهو مكرر الذي قبله.والحديث أخرجه أحمد (2/180 و 203 و 207) من طرق أخرى عن ابن إسحاق... به.وتابعه الوليد بن كثير: حدثني عمرو... به: أخرجه البيهقي (6/190) . وتابعه عمرو بن الحارث وهشام بن سعد عنه... بلفظ: قال: طعام مأكول: لك أو لأخيك أو للذئب، احبس على أخيك ضَالتَهُ .أخرجه البيهقي (4/152- 153) .
تعریف(لُقَظَه)(لام کے ضمہ اور قاف پر فتحہ یا سکون کے ساتھ)’’ہر محترم اور قابل حفاظت مال جو کسی ایسی جگہ پڑا ہوا ملے جہاں اس کا مالک معلوم نہ ہو اور چھوڑ دینے پر اس کے ضائع ہو جانے کا ندیشہ ہو‘ لُقَطہ کہلاتا ہے ۔‘‘ اگر یہ حیوان کی جنس سے ہو تو اسے (ضالّہ) سے تعبیر کرتے ہیں۔حکم: ایسا مال بطور امانت اپنی تحویل میں لے لینا مستحب ہے جبکہ کچھ فقہاء واجب کہتے ہیں لیکن اگر ضائع ہو جانے کا اندیشہ غالب ہو‘تو اسے تحویل میں لینا واجب ہے اگر اس کا بحفاظت رکھنا ممکن ہو تو حفاظت سے رکھ کر اعلان کرے اگر وہ چیز بچ نہ سکتی ہو تو خرچ کر لے اور مالک کے ملنے پر اس کی قیمت ادا کر دے۔آگے حدیث نمبر 1711 اور 1713 میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بے مالک ملنے والی بکری کو ریوڑ میں شامل کرنے کا حکم دیا کیونکہ جسے ملی تھی اس کا ریوڑ تاتھا اور حدیث نمبر 1712 میں ہے کہ آپ نے فرمایا:’’وہ تمہاری ہے ۔‘‘ صحیح بخاری کی روایت میں ہے :’’اسے لے لو وہ تمہاری ہے یا تمہارے کسی بھائی کی یا پھر بھیڑیے کی ۔‘‘ آپ نے بھیڑیے اور اس آدمی کو جسے ملی تھی ،دونوں کی ایک جیسی حالت کی طرف اشارہ فرمایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آدمی کا ریوڑ نہ تھا اس لیے اس سے فرمایا لے لو ایسی چیزیں جو جلد خراب ہو جاتی ہیں perishables ان کا کھا لینا جائز ہے اور صحیح ترین قول کے مطابق ان کی واپسی کی بھی ضرورت نہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے(فتح الباری‘کتاب اللقطة:باب اذا وجد خشبة فی البحر أو سوطا او نحوه)اگر کسی کو اندیشہ ہو کہ اس کے دل میں اس کا مالک بن بیٹھے کی حرص وطمع پیدا ہو سکتی ہے او ایسی حالت میں تحویل میں لینا حرام ہے یہ مال اُٹھانے والے کے پاس امانت رہتا ہے ۔اور اس پر واجب ہے کہ ایسے مجمع عام میں‘ جہاں اس کا مالک ملنے امکان زیادہ ہواعلان کرے۔اعلان کرنے کی مدت متفقہ طور پر کم ازکم ایک سال ہے اگر اس کا مالک مل جائے اور خاص علامات جیسے نقدی یا دیگر قیمتی اشیاء کی صورت میں برتن ‘تھیلی ‘ سر بند ‘عدد‘ وزن یا ناپ وغیرہ بتا دے۔
ابن اسحٰق ، عمرو بن شعیب سے، وہ (عمرو) اپنے والد سے، وہ اپنے دادا (عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ) سے، وہ نبی کریم ﷺ سے یہی روایت کرتے ہیں تو ان کے لفظ ہیں «فاجمعها حتى يأتيها باغيها» ”اس کو اپنے مال کے ساتھ ملا لے حتیٰ کہ اس کا متلاشی آ جائے۔“
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اس سند سے بھی عبداللہ بن عمرو ؓ سے یہی حدیث مروی ہے اس میں ہے: ”گمشدہ بکری کے متعلق آپ ﷺ نے فرمایا: اسے پکڑے رکھو، یہاں تک کہ اس کا ڈھونڈھنے والا اس تک آ جائے۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
The above mentioned tradition has also been narrated by ‘Amr bin Shu’aib from his father, from his grandfather, from the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) to the same effect. This version has: regarding the stray sheep he said: Take it (and keep it with you) till its seeker comes to it.