Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: The Time Of Ihram)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1773.
سیدنا انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینے میں ظہر کی نماز چار رکعت ادا فرمائی اور ذوالحلیفہ میں عصر کی دو رکعتیں پڑھیں اور یہیں رات گزاری حتیٰ کہ صبح ہو گئی۔ پھر جب آپ اپنی سواری پر سوار ہوئے اور وہ آپ کو لے کر سیدھی کھڑی ہو گئی تو آپ نے تلبیہ پکارا۔
تشریح:
قصر نماز سفر شروع ہونے کے بعد ہی پڑھی جاتی ہے اور ذوالحلیفہ آپ کے سفرکی پہلی منزل تھی اور یہی اہل مدینہ کی میقات احرام ہے اور نبی ﷺ نے یہیں دوسرے دن ظہر کی نماز کے بعد احرام باندھا اور تلبیہ پکارنا شروع کیا۔ اس حدیث سے واضح ہے کہ نبی ﷺ نے احرام کی دو رکعتیں نہیں پڑھیں۔ اگلی روایت میں اس کی مزید وضاحت ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح على شرطهما. وقد أخرجه البخاري) .إسناده: حدثنا أحمد بن حنبل: ثنا محمد بن بكر: ثنا ابن جريج عن محمد بن المنكدر عن أنس.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجه البخاري كما يأتي.والحديث أخرجه أحمد في (مسند جابر) (3/378) : ثنا محمد بن بكر...به سنداً ومتناً.وأخرجه البخاري (3/318) من طريق هشام بن يوسف: أخبرنا ابن جريج:حدثنا ابن المنكدر... به.وأخرجه البيهقي (3/38) من طريق ثالثة عن ابن جريج... به مثل روايةالكتاب.وتابعه أبو قلابة عن أنس... به؛ وزاد. على البيداء.أخرجه البخاري (3/321) .وله متابعة ثانية، تأتي في الكتاب بعده.
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
تمہید باب
[احرام ] کےلغوی معنی ہیں ’’ حرمت میں داخل ہونا ‘‘ اور اصطلاحا ً :حج و عمرہ کی عبادت میں شروع ہونے کی نیت کو احرام کہتے ہیں ۔اس کے آداب میں سے یہ ہے کہ انسان پہلے عام طہارت ونظافت کا اہتمام کرے یعنی ناخن اور مونچھیں وغیرہ کاٹ لے ‘ بغلوں اور زیر ناف بال صاف کرلے ‘اگر ضفائی وستھرائی کو دیر ہو گئی ہوتو غسل کرے کیونکہ یہ مسنون عمل ہے اور اگر ایک دن پہلے غسل وغیرہ کیاہو تو پھر تجدید غسل کی ضرورت نہیں پھر صرف وضو ہی کر لے ۔اس کےبعد مرد اپنے سلے کپڑوں کی بجائے صرف دوچادریں پہن لے ۔ ایک بطور ازارزیریں جسم کے لیے ) اور دوسری کندھوں پر ڈالنے کے لیے ۔ اس وقت خوشبو کا استعمال بھی سنت ہے ۔جوتا ایسا ہونا چاہیے جس میں ٹخنے ننگ ہوں ۔ اس موقع پر دورکعت پڑھنے کی کوئی واضح دلیل نہیں ‘ اس لیے یہ ضروری نہیں ‘ تاہم فرض نماز کے بعد احرام باندھنا مستحب ہے ۔ پھر یہ الفاظ اپنی زبان سے اداکرے :[اللهم لبیک حجة]یا [اللهم لبيك عمرة ] اور اس کلمہ کا ورد شروع کر دے ۔[لبيك اللهم لبيك لاشريك لك لبيك ان الحمد والنعمة لك والملك لاشريك لك ] اس کے بعد مرد اپنا سر نہیں ڈھانپ سکتا ‘ سلا ہوا لباس ‘ قمیص ‘ شلوار ‘ پاجامہ ‘ مورہ اور دستانے نہیں پہن سکتا ۔ خوشبو نہیں لگا سکتا ۔بال یا ناخن نہیں کاٹ سکتا ۔زوجین (میاں بیوی ) مباشرت (ہم بستری )نہیں کر سکتے ‘حشکی کا شکار کرنا بھی منع ہوتا ہے ۔
خواتین کا لباس احرام وہی عامہی ہوتا ہےجو وہ استعمال کرتی ہیں ‘ صرف دستانے نہیں پہن سکتین اورنقاب بھی نہ لیں لیکن جب اجانب (غیر محرم)سامنے آئیں تو پھر اس صورت میں پردہ واجب ہے
سیدنا انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینے میں ظہر کی نماز چار رکعت ادا فرمائی اور ذوالحلیفہ میں عصر کی دو رکعتیں پڑھیں اور یہیں رات گزاری حتیٰ کہ صبح ہو گئی۔ پھر جب آپ اپنی سواری پر سوار ہوئے اور وہ آپ کو لے کر سیدھی کھڑی ہو گئی تو آپ نے تلبیہ پکارا۔
حدیث حاشیہ:
قصر نماز سفر شروع ہونے کے بعد ہی پڑھی جاتی ہے اور ذوالحلیفہ آپ کے سفرکی پہلی منزل تھی اور یہی اہل مدینہ کی میقات احرام ہے اور نبی ﷺ نے یہیں دوسرے دن ظہر کی نماز کے بعد احرام باندھا اور تلبیہ پکارنا شروع کیا۔ اس حدیث سے واضح ہے کہ نبی ﷺ نے احرام کی دو رکعتیں نہیں پڑھیں۔ اگلی روایت میں اس کی مزید وضاحت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں ظہر چار رکعت اور ذی الحلیفہ میں عصر دو رکعت ادا کی، پھر ذی الحلیفہ میں رات گزاری یہاں تک کہ صبح ہو گئی، جب آپ ﷺ اپنی سواری پر بیٹھے اور وہ آپ کو لے کر سیدھی ہو گئی تو آپ نے تلبیہ پڑھا۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Anas (RA) said: Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) prayed four rak’ahs at Madinah and prayed two rak’ahs of afternoon prayer at Dhu-al Hulaifah. He then passed the night at Dhu-al Hulaifah till the morning came. When he rode on his mount and it stood up on its back, he raised his voice in talbiyah.