Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: Uncovering The Right Shoulder During Tawaf)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1883.
سیدنا یعلیٰ بن امیہ ؓ کا بیان ہے کہ نبی کریم ﷺ نے طواف کیا جبکہ آپ ﷺ اضطباع کیے ہوئے تھے اور چادر سبز رنگ کی تھی۔
تشریح:
1۔ احرام کے لئے ضروری نہیں کہ چادرسفید ہی ہو دوسرے رنگ کے کپڑے میں بھی جائز ہی ہے۔ صرف زرد رنگ ناپسندیدہ ہے۔ جب کہ سفید اور افضل اور مستحب ہے۔ 2۔ طواف شروع کرتے ہوئے اپنے اوپر کی چادر کو دایئں بغل کے نیچے سے نکال کربایئں کندھے پر ڈال لینا اضطباع کہلاتا ہے۔ یہ عمل صرف طواف قدوم میں ثابت ہے۔ جس میں رمل کیا جاتا ہے خیال رہے کہ اضطباع صرف طواف قدوم میں کرنا ہے۔ اس کی مشروعیت کا مقصود رمل کی طرح قوت کا اظہار تھا۔ اس کے بعد نماز اور دیگر اعمال میں اضطباع نہیں کیا جاتا۔
الحکم التفصیلی:
قلت: حديث حسن، وقال الترمذي: حسن صحيح ) .إسناده: حدثنا محمد بن كثير: أخبرنا سفيان عن ابن جريج عن ابن يعلى عن يعلى.
قلت: وهذا إسناد ضعيف، رجاله ثقات ، غير ابن يعلى، فهو غير معروف عندي.وأبوه يعلى- وهو ابن أمية- له من الأولاد: صفوان ومحمد وعثمان وعبد الرحمن، وكلهم روى عنه، ولذلك قال الحافظ: يحتمل أن يكون هو صفوان .وأما الجزم بأنه صفوان- كما فعل بعض الشراح-؛ فمما لا دليل عليه!على أن ابن جريح مدلس، وقد عنعنه، وقد أدخل بعض الرواة بينه وبن ابن يعلى: عبد الحميد بن جبير كما يأتي.لكن الحديث يشهد له الحديث الآتي بعده؛ فهو به حسن.والحديث أخرجه أحمد (4/223 و 224) : ثنا وكيع قال: ثنا سفيان... به.وأخرجه الترمذي (859) ، وابن ماجه (2/223) من طرق أخرى عن سفيان عن عبد الحميد عن ابن يعلى... به.وهو رواية لأحمد (4/222) ؛ ولكنه قال. عن رجل.. لم يقل: عبد الحميد.وقال الترمذي: لا نعرفه إلا من حديث الثوري عن ابن جريج، وهو حديث حسن صحيح،وعبد الحميد: هو ابن جبير بن شيبة عن ابن يعلى عن أبيه؛ وهو يعلى بن أمية .
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
سیدنا یعلیٰ بن امیہ ؓ کا بیان ہے کہ نبی کریم ﷺ نے طواف کیا جبکہ آپ ﷺ اضطباع کیے ہوئے تھے اور چادر سبز رنگ کی تھی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ احرام کے لئے ضروری نہیں کہ چادرسفید ہی ہو دوسرے رنگ کے کپڑے میں بھی جائز ہی ہے۔ صرف زرد رنگ ناپسندیدہ ہے۔ جب کہ سفید اور افضل اور مستحب ہے۔ 2۔ طواف شروع کرتے ہوئے اپنے اوپر کی چادر کو دایئں بغل کے نیچے سے نکال کربایئں کندھے پر ڈال لینا اضطباع کہلاتا ہے۔ یہ عمل صرف طواف قدوم میں ثابت ہے۔ جس میں رمل کیا جاتا ہے خیال رہے کہ اضطباع صرف طواف قدوم میں کرنا ہے۔ اس کی مشروعیت کا مقصود رمل کی طرح قوت کا اظہار تھا۔ اس کے بعد نماز اور دیگر اعمال میں اضطباع نہیں کیا جاتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
یعلیٰ ؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ہری چادر میں اضطباع کر کے طواف کیا۱؎۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: اضطباع کی شکل یہ ہے کہ محرم چادر کو دائیں بغل کے نیچے سے گزار کر بائیں کندھے پر ڈال دے اور دایاں کندھا ننگا رکھے، اور یہ صرف پہلے طواف میں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ya'la: The Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) went round the House (the Ka'bah) wearing a green Yamani mantle under his right armpit with the end over his left shoul.