Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: Regarding As-Safa and Al-Marwah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1903.
اسمعیل بن ابی خالد کہتے ہیں میں نے سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی ؓ سے یہ حدیث سنی۔ اور یہ مزید کہا: پھر آپ صفا مروہ کی طرف آئے اور ان کے درمیان سات چکر لگائے پھر اپنا سر منڈایا۔
تشریح:
علامہ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں۔ کہ اس حدیث میں سر منڈانے کا بیان صحیح نہیں اس عمرے میں آپ کا بال کتروانا ثابت ہے۔
الحکم التفصیلی:
قلت: حديث صحيح؛ إلا قوله: ثم حلق رأسه...، فقد تفرد به شريك القاضي، وهو سيئ الحفظ) .إسناده: حدثنا تَمِيم بن المنتصر: أخبرنا إسحاق بن يوسف: أخبرنا شريك عن إسماعيل بن أبي خالد قال: سمعت عبد الله بن أبي أوفى.
قلت: وهذا إسناد حسن، رجاله ثقات ؛ لولا سوء حفظ شريك- وهو ابن عبد الله القاضي-؛ فإني أخشى أن يكون تفرد بقوله. ثم حلق رأسه.فإني لم أر هذه الزيادة في شيء من الطرق المتقدمة عن إسماعيل، والله أعلم.والحديث أخرجه البيهقي (5/102) من طريق المصنف.
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
تمہید باب
(إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّـهِ ۖ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا ۚ وَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّـهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ)(البقرۃ۔158)''بلاشبہ صفا اور مروہ اللہ (کےدین) کی نشانیوں میں سے ہیں۔ سو جو کوئی بیت اللہ کا حج اور عمرہ کرے۔تو اس پر گناہ نہیں کہ ان دونوں کا طواف کرے۔اور جو کوئی خوشی سے کوئی نیکی کرے تو اللہ تعالیٰ قدردان ہے۔خوب جاننے والا ہے۔''
اس آیت کریمہ کو اس کا پس منظر (شان نزول) جانے بغیر پڑھا سنا جائے۔تو بظاہر سمجھا جاتا ہےکہ صفا اور مروہ کی سعی ایک عام سا مستحب عمل ہے۔کوئی لازمی اور واجبی نہیں حالانکہ یہ واجب ہے۔ جناب عروہ ؒ نے اپنے اسی اشکال کا اظہار اپنی خالہ ام المومنین ام عبد اللہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے کیا توانہوں نے اس کے پس منظر(شان نزول) کی روشنی میں انھیں سمجھایا کہ یہ آیت صفا اور مروہ کی سعی کے واجب یا غیر واجب ہونے کے بیان میں نہیں بلکہ انصار کے ایک قدیم شبہ کا جواب ہے۔جوان کے زہنوں میں بیٹھا ہوا تھا۔اور وہ سعی سے گریزاں تھے۔ صفا مروہ کی سعی اعمال حج وعمرہ کا رکن ہے۔اور رسو ل اللہ ﷺ کے قول وفعل سے ثابت ہے۔ آپﷺنے فرمایاتھا۔(لتاخذوامناسككم)(صحیح مسلم الحج حدیث 1297 وسنن ابی دائود المناسک حدیث 1970)''(مجھ سے)اپنی عبادت حج کا طریقہ سیکھ لو۔''صحیح مسلم میں ہے۔ ما اتم الله حج امري ولاعمرته لم يطف بين الصفا والمروة)(صحيح مسلم الحج حديث ١٢٧٧)اللہ اس کا حج اور عمرہ پورا نہ کرے۔جو صفا مروہ کی سعی نہیں کرتا۔''(تفصیل کےلئے نیل الاوطار باب السعی بین الصفا والمروۃ 58/5)
اسمعیل بن ابی خالد کہتے ہیں میں نے سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی ؓ سے یہ حدیث سنی۔ اور یہ مزید کہا: پھر آپ صفا مروہ کی طرف آئے اور ان کے درمیان سات چکر لگائے پھر اپنا سر منڈایا۔
حدیث حاشیہ:
علامہ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں۔ کہ اس حدیث میں سر منڈانے کا بیان صحیح نہیں اس عمرے میں آپ کا بال کتروانا ثابت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اس سند سے بھی عبداللہ بن ابی اوفی ؓ سے یہی حدیث مروی ہے البتہ اس میں اتنا اضافہ ہے: پھر آپ صفا و مروہ آئے اور ان کے درمیان سات بار سعی کی، پھر اپنا سر منڈایا۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Isma’il bin Abi Khalid said: I heard ‘Abd Allah bin Abi Aufa narrated this tradition. His version added “He then came to As Safa’ and Al Marwah and ran between them seven times and then shaved his head.