Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: Regarding Stoning The Jimar)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1974.
سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب آپ ﷺ جمرہ کبریٰ (جمرہ عقبہ) کے پاس پہنچے تو آپ ﷺ نے بیت اللہ کو اپنے بائیں جانب اور منٰی کو دائیں جانب کیا اور پھر جمرے کو سات کنکریاں ماریں۔ سیدنا ابن مسعود ؓ نے کہا: اور اس طرح سے رمی کی اس ذات نے جس پر سورۃ البقرہ نازل کی گئی تھی۔
تشریح:
اور یہ وہی منظر ہے جس کا ذکر دیگر احادیث میں آیا ہے کہ نبی ﷺ نے وادی کے دامن میں سے کنکریاں ماریں. (صحیح البخاري، الحج، حدیث:1750)
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده صحيح على شرط الشيخين. وقد أخرجاه. وصححه الترمذي وابن الجارود) .إسناده: حدثنا حفص بن عمر ومسلم بن إبراهيم- المعنى- قالا: ثنا شعبة عن الحكم عن إبراهيم عن عبد الرحمن بن يزيد عن ابن مسعود.
قلت: وهذا إسناد صحيح على شرط الشيخين؛ وقد أخرجاه كما يأتي.والحديث أخرجه البخاري (3/458) ... بإسناد المصنف الأول.ثم أخرجه هو، ومسلم (4/79) ، والنسائي (2/50) ، وابن الجارود (475) ،والبيهقي (5/129) ، وأحمد (1/415 و 436) من طرق أخرى عن شعبة... به.وتابعه الأعمش عن إبراهيم... به؛ وزاد:من بطن الوادي؛ يكبر مع كل حصاة.أخرجه الشيخان والنسائي والبيهقي، وأحمد (1/456) .وتابعه جامع بن شَدَاد أبو صخرة عن عبد الرحمن بن يزيد... به مع الزيادة:أخرجه الترمذي (901) ، وابن محاجه (2/243) ، وأحمد (1/430 و 432) . وقال الترمذي: حديث حسن صحيح .وتابعه يزيد النخعي عن عمه عبد الرحمن بن يزيد... به.أخرجه أحمد (1/458) .وتابعه محمد بن عبد الرحمن بن يزيد عن أبيه... به؛ وزاد زيادة أخرى بلفظ: حتى إذا فرغ قال: اللهم! اجعله حجاً مبروراً، وذنباً مغفوراً .أخرجه البيهقي وأحمد (1/427) عن ليث عنه.لكن ليث- وهو ابن أبي سليم- ضعيف.ولهذه الزيادة شاهد من حديث ابن عمر: عَند البيهقي؛ وأعله بقوله: عبد الله بن حكيم ضعيف .
قلت: بل هو هالك؛ فإنه الدَّاهِرِيّ، متهم.ولذلك؛ فإنه لا يصلح للاستشهاد به، وقد خرجته في الضعيفة (1107) .
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب آپ ﷺ جمرہ کبریٰ (جمرہ عقبہ) کے پاس پہنچے تو آپ ﷺ نے بیت اللہ کو اپنے بائیں جانب اور منٰی کو دائیں جانب کیا اور پھر جمرے کو سات کنکریاں ماریں۔ سیدنا ابن مسعود ؓ نے کہا: اور اس طرح سے رمی کی اس ذات نے جس پر سورۃ البقرہ نازل کی گئی تھی۔
حدیث حاشیہ:
اور یہ وہی منظر ہے جس کا ذکر دیگر احادیث میں آیا ہے کہ نبی ﷺ نے وادی کے دامن میں سے کنکریاں ماریں. (صحیح البخاري، الحج، حدیث:1750)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ جب وہ جمرہ کبری (جمرہ عقبہ) کے پاس آئے تو بیت اللہ کو اپنے بائیں جانب اور منیٰ کو دائیں جانب کیا اور جمرے کو سات کنکریاں ماریں، اور کہا: اسی طرح اس ذات نے بھی کنکریاں ماری تھیں جس پر سورۃ البقرہ نازل کی گئی۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abd al-Rahman b. Yazid: On the authority of Ibn Mas'ud (RA): When Ibn Mas'ud came to the largest jamrah, he stood with the House (the Ka'bah) on his left and Mina on his right, and he thew seven pebbles at the jamrah. Then he said: Thus he did throw to whom Surat al-Baqarah was sent down.