Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: Praying In The Ka'bah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2026.
عبدالرحمٰن بن صفوان کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ جب کعبہ میں داخل ہوئے تو کیا کیا تھا؟ انہوں نے کہا: آپ ﷺ نے دو رکعتیں پڑھی تھیں۔
تشریح:
جسے کعبہ کے اندر جانے کا موقع میسر آجائے۔ اس کے لئے وہاں دو رکعت پڑھنا مستحب ہے۔ اور جسے موقع نہ ملے۔ وہ حطیم کے اندر پڑھ لے۔ وہ بھی کعبہ ہی کا حصہ ہے۔ اور شاید اللہ عز شانہ کی یہی حکمت تھی کہ ابتدا سے یہ حصہ کھلا رہ گیا اور تعمیر نہ ہوسکا۔ اس طرح ہر مسلمان کو کعبے کے اندر نماز پڑھنے کی سہولت ہر وقت میسر رہتی ہے۔ والحمد للہ علی ذلك
الحکم التفصیلی:
قلت: حديث صحيح) .إسناده: حدثنا زهير بن حرب: ثنا جرير عن يزيد بن أبي زياد عن مجاهد عن عبد الرحمن بن صفوان.
قلت: وهذا إسناد رجاله ثقات؛ غير عبد الرحمن بن صفوان- وهو ابن قُدَامَةالجُمَحِي-، فقد اختلفوا في صحبته.ويزيد بن أبي زياد- وهو الهاشمي مولاهم- فيه ضعف من قبل حفظه.لكن للحديث شواهد تقويه كما يأتي.والحديث أخرجه أحمد (3/431) : ثنا أحمد بن الحجاج: أنا جرير... به؛وفي أوله قصة فتح مكة.وأخرجه الطبراني أيضاً بإسناد؛ قال الحافظ (1/398) : صحيح .
قلت: فلعله عنده من غير طريق يزيد بن أبي زياد؛ فإن كان كذلك؛ ثبتت صحبة عبد الرحمن بن صفوان؛ لأن سياق أحمد والطبراني يدل على أنه كان حاضراً حين صلى الرسول صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وقال الهيثمي (3/296) : رواه الطبراني، ورجاله رجال (الصحيح) . وعزاه (3/295) للبزار، وقال: ورجاله رجال (الصحيح) !وفاته هو والحافظ: أنه في المسند ؛ فلم يعزواه إليه!ويغلب على ظني الآن أن سنده عند البزار والطبراني فيه الهاشمي أيضاً، وهومن رجال مسلم مقروناً، ولذلك قال الهيثمي متسامحاً: ورجاله رجال (الصحيح) ! وتلقاه عنه الحافظ، فقال: إسناده صحيح ! ظاناً أن رجاله كلهم محتج بهم في الصحيح ، وهوالمتبادر من ذلك القول. وخفي عليه أن الهاشمي من رجاله لم يحتج به مسلم.والله أعلم.وللحديث شواهد أخرى، تراها في الفتح .
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
عبدالرحمٰن بن صفوان کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عمر بن خطاب ؓ سے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ جب کعبہ میں داخل ہوئے تو کیا کیا تھا؟ انہوں نے کہا: آپ ﷺ نے دو رکعتیں پڑھی تھیں۔
حدیث حاشیہ:
جسے کعبہ کے اندر جانے کا موقع میسر آجائے۔ اس کے لئے وہاں دو رکعت پڑھنا مستحب ہے۔ اور جسے موقع نہ ملے۔ وہ حطیم کے اندر پڑھ لے۔ وہ بھی کعبہ ہی کا حصہ ہے۔ اور شاید اللہ عز شانہ کی یہی حکمت تھی کہ ابتدا سے یہ حصہ کھلا رہ گیا اور تعمیر نہ ہوسکا۔ اس طرح ہر مسلمان کو کعبے کے اندر نماز پڑھنے کی سہولت ہر وقت میسر رہتی ہے۔ والحمد للہ علی ذلك
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبدالرحمٰن بن صفوان کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب ؓ سے پوچھا: رسول اللہ ﷺ جب کعبہ میں داخل ہوئے تو آپ نے کیا کیا؟ انہوں نے کہا: آپ ﷺ نے دو رکعتیں پڑھیں۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
‘Abd Al Rahman bin Safwan said “I asked ‘Umar (RA) bin Al Khattab How did the Apostle of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) do when he entered the Ka’bah? He said “He offered two rak’ahs of prayer”.