Abu-Daud:
The Rites of Hajj (Kitab Al-Manasik Wa'l-Hajj)
(Chapter: Regarding The Sacredness Of Al-Madinah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2036.
سیدنا عدی بن زید ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ کی ہر طرف سے ایک ایک برید (بارہ میل) کو محفوظ علاقہ قرار دیا تھا کہ نہ اس کے درخت کاٹے جائیں اور نہ پتے توڑے جائیں، مگر اونٹ کے چارے کے بقدر جائز ہے۔
تشریح:
الحکم التفصیلی:
قلت: إسناده ضعيف (هذا الحديث أشار الشيخ رحمه الله إلى نقله من الضعيف إلى هنا. انظر نهايةالتخريج. (الناشر) ، مسلسل بالمجهولين: عدي بن زيد فنازلاً) .إسناده: حدثنا محمد بن العلاء: أن زيد بن الحباب حدثهم: ثنا سليمان بن كنانة...
قلت: وهذا إسناد ضعيف، عبد الله بن أبي سفيان- وهو مولى ابن أبي أحمد-؛ قال الذهبي في ترجمته بعد أن ساق الحديث: لا يعرف عدي إلا بهذا الحديث، ولا يُدرى من هو عبد الله في خلق الله،تفرد به عنه سليمان بن كنانة، وما هو بالمشهور .وعبد الله هذا روى عنه جمع، وذكره ابن حبان في الثقات ، وقال ابن القطان: لا يعرف حاله . وقال المنذري: هو في معنى المجهول .وسليمان بن كنانة- وهو الأموي؛ مولى عثمان- روى عنه أيضاً أبو عامرالعقدي والواقدي. قال أبو حاتم: لا أعرفه . وقال الحافظ: مجهول الحال . لكن ذكر في ترجمة عدي بن زيد الجذامي من الإصابة ؛ أنه تابعه إبراهيم بن أبي يحيى عن داود بن الحصين عن عدي بن زيد الأنصاري. وقال: فيحتمل أن يكون هذا جذامياً حَالَفَ الأنصارَ .
قلت: لكن إبراهيم هذا متروك؛ فلا فائدة من متابعته.وروي من طريق الفضل عن جابر مختصراً.أخرجه البزار (1160) ، وقال: لا يروى إلا من هذا الوجه، والفضل بن مبشر صالح الحديث .
قلت: وتعقبه الحافظ في مختصر الزوائد فقال (1/479) :
قلت: بل ضعيف .ثم وجدت للحديث شاهدين آخرين؛ أحدهما صحيح، فخرجت الحديث مع شواهده في الصحيحة (3234) ، ولذلك قررت نقله إلى الصحيح .
[نسک] (نون اور سین کے ضمہ کے ساتھ )کے معنی ہیں ’’وہ عبادت جو خاص اللہ عز وجل کا حق ہو ۔‘‘[منسک ](میم کے فتحہ اور سین کے فتحہ یا کسرہ کے ساتھ )کامفہوم ہے ’’مقام عبادت ‘‘اور مصدری معنی میں بھی آتا ہے ۔[مناسک ]اس کی جمع ہے۔
تعریف: ’’حج ‘‘کے لغوی معنی قصد اور ارادہ کے ہیں ‘ مگر اصطلاحی شریعت میں معروف ومعلوم آداب و شرائط کے ساتھ بیت اللہ الحرام کا قصد حج کہلاتا ہے۔’’عمرہ‘‘ (بمعنی عبادت )میں بھی بیت اللہ کی ریازت ہوتی ہے ‘ مگر حج ماہ ذوالحج کی تاریخوں کے ساتھ خاص ہے او ر طواف وسعی کے علاوہ وقوف عرفہ اور دیگر اعمال اس میں شامل ہیں ‘ جبکہ عمرہ میں صرف طواف اور سعی ہوتی ہے اور سال کےتمام دنوں میں اسے ادا کیا جاسکتا ہے۔
حکم : حج اسلام کا بنیادی رکن ہے ۔اس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت (مالدار )‘عاقل ‘ بالغ مسلمان مرد و عورت پراسی طرح فرض ہے جس طرح پانچوں وقت کی نماز ‘ رمضان کے روزے اور صاحب نصاب شخص پر زکوۃ ادا کرنا فرض ہے ۔ان سب کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ۔لہذا جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا بلکہ اسے وقت اور پیسے کا ضیاع سمجھتا یا اس کا مذاق اڑاتا ہے جیسا کہ آج کل کے بعض متجددین ‘ منکر حدیث اور مادہ پرستوں کا نقطہ نظر ہے توایسا شخص کا فر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود محض سستی اور کاہلی یا اس قسم کے کسی اور عذر لنگ کی وجہ سے حج نہین کرتا تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج تونہیں ‘ البتہ فاسق و فاجر اور کبیرہ گناہ کا مرتکب ضرور ہے۔
حج کی اہمیت اس بات سے روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ رب العالمین نے قرآن مجید میں اس فرضیت کوبیان کیاہے اور ایک بڑی سورت کانام سورۃ الحج رکھا ہے۔
سیدنا عمر فاروق نے فرمایا :میں ارادہ کرتا ہوں کہ شہروں میں اپنے عمل (اہل کار)بھیجوں‘ وہ جا کر جائزہ لیں اور ہر اس شخص پر جواستطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا ‘ جزیہ مقرر کردیں کیونکہ وہ لوگ مسلمان نہیں ہیں ۔(تلخیص الحبیر :2/223)
اسی طرح السنن الکبری بیہقی میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق نے تین بار فرمایا : جوشخص وسعت اور پر امن راستے کےباوجود حج نہیں کرتا اور مر جاتاہے تو اس کےلیے برابر ہے چاہے وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر اور اگر استطاعت کےہوتے ہوئے میں نے حج نہ کیا ہو تو مجھے حج کرنا‘ چھ یا سات غزوات میں شرکت کرنے سے زیادہ پسندہے ۔(السنن الکبری للبیہقی :4/334)
لہٰذا ہمیں حج کی فرضیت واہمیت اور سیدنا عمر فاروق کے اس فرمان کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ اکثر وہ مسلمان جو سرمایہ دار ‘ زمین دار اور بینک بیلنس رکھتے ہیں لیکن اسلام کےاس عظیم رکن کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کے مرتکب ہو رہے ہیں ‘ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور فوراً توبہ کریں اور پہلی فرصت میں اس فرض کی کو ادا کریں ۔
نبی اکر م ﷺ نے حج کی فضیلت کی بابت فرمایا :’’حج مبرور کابدلہ صرف جنت ہے۔‘‘(صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)حج مبرور ‘ وہ حج ہےجو مسنون طریقہ اوو شرعی تقاضوں کے عین مطابق کیا گیا ہو ‘ اس میں کوئی کمی بیشی نہ کی گئی ہو ۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا :جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اس دوران میں اس نے کوئی فحش گوئی کی ‘ نہ کوئی براکام تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف واپس لوٹے گا جس طرح وہ اس وقت تھا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ الحج ‘حدیث :(1521)اس حدیث سےمعلوم ہوا کہ حج کے عظیم اجر وثواب کا مستحق صرف وہ شخص ہے جس نے دوران حج میں زبان سےکوئی بےہودہ بات کی نہ ہاتھ ‘ پاؤں اور دیگر اعضاء آنکھوں ‘ کانوں وغیرہ سے کوئی براکام کیا ۔
عمر ہ کی لغوی تعریف : حج کی طرح عمر ہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے ۔لغت میں اس کے معنی ’’ارادہ اور زیارت ‘‘ کے ہیں کیونکہ اس میں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے ۔ مگر اصطلاحی شریعت میں میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ شریف کا طواف اور صفاومروہ کی سعی کرنا اور سر کے بال منڈوانا یا کٹوانا عمرہ کہلاتاہے ۔اسلام میں عمر ہ کی بھی بڑی اہمیت وفضیلت ہے ‘ اکثر علماء کے نزدیک گویہ فرض یہ واجب نہیں مگر جب اس کا احرام باندھ لیا جائےتو حج کی طرح اس کا پورا کرنا بھی ضروری ہو جاتا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو :نیل الاوطار :4/314)قرآن مجید میں اللہ تعالی ٰ نے اس بابت فرمایا :﴿واتموا الحج والعمرة لله ﴾ (البقرہ :196)’’اللہ کے لیے حج اور عمرہ کوپورا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ العمرۃ ‘ حدیث :1773)عام دنوں کی نسبت رمضان المبارک میں عمرہ کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :’’ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے ۔‘‘ (صحیح البخاری ‘ جزاء الصید ‘ حدیث :1863)
حج اور عمرہ سےمتعلق مفصل احکام ومسائل اردو میں کتاب ’’مسنون حج او رعمرہ ‘‘ (مطبوعہ دار السلام )میں ملاحظہ فرمائیں ۔
سیدنا عدی بن زید ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ کی ہر طرف سے ایک ایک برید (بارہ میل) کو محفوظ علاقہ قرار دیا تھا کہ نہ اس کے درخت کاٹے جائیں اور نہ پتے توڑے جائیں، مگر اونٹ کے چارے کے بقدر جائز ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عدی بن زید ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ کے ہر جانب ایک ایک برید محفوظ کر دیا ہے۱؎ نہ وہاں کا درخت کاٹا جائے گا اور نہ پتے توڑے جائیں گے مگر اونٹ کے چارے کے لیے (بہ قدر ضرورت)۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: چاروں اطراف مشرق، مغرب اور شمال جنوب کو ملا کر کل چار برید ہوئے اور ایک برید چار فرسخ کا ہوتا ہے اور ایک فرسخ تین میل کا اس طرح اس حدیث کی رو سے کل (۴۸) میل بنتا ہے جبکہ صحیح مسلم کی روایت میں (۱۲) میل کی صراحت آئی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
‘Adi bin Zaid said “The Apostle of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم) declared Madeenah a protected land a mail-post(three miles) from each side. Its trees are not to be beaten off or to be cut except what is taken from the Camel.