Abu-Daud:
Sacrifice (Kitab Al-Dahaya)
(Chapter: A Sheep Sacrificed For A Group Of People)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2810.
سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک عید الاضحی کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عید گاہ میں حاضر تھا۔ جب آپ ﷺ نے اپنا خطبہ مکمل کر لیا اور منبر سے اترے تو آپ ﷺ کو ایک مینڈھا پیش کیا گیا۔ آپ ﷺ نے اسے اپنے ہاتھ سے ذبح کیا اور یہ دعا پڑھی «بِسْمِ اللَّهِ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، هَذَا عَنِّي وَعَمَّنْ لَمْ يُضَحِّ مِنْ أُمَّتِي» ”اللہ کے نام سے، اور اللہ سب سے بڑا ہے، یہ میری طرف سے اور میری امت کے ان لوگوں کی طرف سے ہے جو قربانی نہیں کر سکے۔“
تشریح:
1۔ ایک بکری کا اپنے تمام گھر کے افراد کی طرف سے کفایت کرنا تو بالکل صحیح بات ہے۔ مگر لوگوں کی ایک جماعت کی طرف سے ایک بکری ذبح کرنا صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے۔ 2۔ عید گاہ میں بعض اوقات منبر استعمال کرلیا جائے۔ تو جائز ہے۔ جیسے کہ اس حدیث میں بیان ہے۔ علاوہ ازیں صحیح بخاری۔ اورصحیح مسلم میں بھی اس بات کا تزکرہ موجود ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبے سے فارغ ہوئے تو نیچے اترے اور عورتوں کی طرف تشریف لے گئے۔ (صحیح البخاري، العیدین، حدیث: 961۔ و صحیح مسلم، العیدین، حدیث: 884)
(الضَّحَايَا)ضَحِيَّةٌ(اَلْا ضَاحِى)اُضْحِيَّة كى جمع اور(اَلْاضَحى ) اَضْحَاةٌ کی جمع ہے۔اس سے مراد وہ جانور ہے جو ماہ ذوالحجہ کی دسویں تاریخ یا ایام تشریق میں عید کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کے تقرب کے لیے ذبح کیا جاتا ہے۔ اس عمل کی مشروعیت قرآن مجید سے ثابت ہے ‘فرمایا(فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ)(الکوثر:2)’’اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجئے۔‘(وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُمْ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ)(الحج :36) قربانی کے اونٹ ہم نے تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں میں سے بنائے ہیں ‘ان میں تمہارا نفع ہے۔‘‘رسول اللہﷺ کے قول و عمل سے اس کی تصدیق ہوتی ہے اور ابتدا ہی سے مسلمان اس پر کار بند اور اس کے مسنون ہونے کے قائل ہیں اس مقصد کے لیے اونٹ ‘گائے‘بکری اور بھیڑ نر و مادہ کو ذبح کیا جاسکتا ہے ۔کوئی دوسرا جانور اس میں کار آمد نہیں ہوتا۔فرمایا(لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ)(الحج:34) ’’تا کہ وہ ان چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں قربانی کا حکم یکم ہجری کو ہوا۔ لہذانبی ﷺ نے خود بھی قربانی کی اور امت کو بھی اس کا حکم دیا۔ حضرت انس فرماتے ہیں کہ نبئ اکرمﷺ نے دو سینگوں والے چتکبرے مینڈے ذبح کیے۔(صحیح البخاری‘الاضاحی‘حدیث:5554)
٭حکمت قربانی:قربانی میں متعدد حکمتیں پنہاں ہیں ‘ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :
٭اللہ تعالیٰ کے قرب اور خوشنودی کا حصول ‘مومنوں کو حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے(قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ)(الانعام:162) کہہ دیجیئے ! بے شک میری نماز‘ میری قربانی ‘میرا مرنا اور جینا اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔‘‘
٭جد انبیاء ابراہیم کی سنت کی یاد تازہ کی جاتی ہے۔
٭اللہ تعالیٰ نے بے شمار جانور ہمارے فائدہ کے لیے پیدا فرمائے ہیں ‘ انہی جانوروں میں سے چند ایک کی قربانی کر کے اس نعمت کا شکر ادا کیا جاتا ہے۔
٭قربانی کے آداب:قربانی کرنے والے کے لیے درج ذیل آداب ومسائل کو مد نظر رکھنا ضروری ہے:
(1) قربانی کا جانور مسنہ (دو دانتا) ہونا ضروری ہے ‘ تاہم بعض کے نزدیک افضل ہے۔
(2) جانور کو خصی کروانا تا کہ وہ خوب صحت مند ہو جائے ‘جائز ہے ۔اور اس کی قربانی بھی جائز ہے۔
(3) قربانی قرب الہی کے حصول کا ذریعہ ہے لہذا قربانی میں ردی ‘ نہایت کمزورلاغر‘بیمار‘لنگڑالولا‘کانا یا کوئی اور عیب زدہ جانور ذبح کرنا درست نہیں۔
(4) عید کے روز قربانی نماز کی ادائیگی کے بعد کی جائے گی ورنہ قربانی نہیں ہو گی ‘البتہ ایام تشریق میں رات اور دن کے کسی بھی حصے میں قربانی کی جا سکتی ہے۔
سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک عید الاضحی کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عید گاہ میں حاضر تھا۔ جب آپ ﷺ نے اپنا خطبہ مکمل کر لیا اور منبر سے اترے تو آپ ﷺ کو ایک مینڈھا پیش کیا گیا۔ آپ ﷺ نے اسے اپنے ہاتھ سے ذبح کیا اور یہ دعا پڑھی «بِسْمِ اللَّهِ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، هَذَا عَنِّي وَعَمَّنْ لَمْ يُضَحِّ مِنْ أُمَّتِي» ”اللہ کے نام سے، اور اللہ سب سے بڑا ہے، یہ میری طرف سے اور میری امت کے ان لوگوں کی طرف سے ہے جو قربانی نہیں کر سکے۔“
حدیث حاشیہ:
1۔ ایک بکری کا اپنے تمام گھر کے افراد کی طرف سے کفایت کرنا تو بالکل صحیح بات ہے۔ مگر لوگوں کی ایک جماعت کی طرف سے ایک بکری ذبح کرنا صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے۔ 2۔ عید گاہ میں بعض اوقات منبر استعمال کرلیا جائے۔ تو جائز ہے۔ جیسے کہ اس حدیث میں بیان ہے۔ علاوہ ازیں صحیح بخاری۔ اورصحیح مسلم میں بھی اس بات کا تزکرہ موجود ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبے سے فارغ ہوئے تو نیچے اترے اور عورتوں کی طرف تشریف لے گئے۔ (صحیح البخاري، العیدین، حدیث: 961۔ و صحیح مسلم، العیدین، حدیث: 884)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ میں عید الاضحی میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عید گاہ میں موجود تھا، جب آپ ﷺ خطبہ دے چکے تو منبر سے اترے اور آپ کے پاس ایک مینڈھا لایا گیا تو آپ ﷺ نے: «بِسْمِ اللَّهِ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، هَذَا عَنِّي وَعَمَّنْ لَمْ يُضَحِّ مِنْ أُمَّتِي» ”اللہ کے نام سے، اللہ سب سے بڑا ہے، یہ میری طرف سے اور میری امت کے ہر اس شخص کی طرف سے ہے جس نے قربانی نہیں کی ہے۱؎“ کہہ کر اسے اپنے ہاتھ سے ذبح کیا۔
حدیث حاشیہ:
۱؎: ا س جملے سے ثابت ہوا کہ مسلم کی جس روایت میں اجمال ہے (یعنی: یہ میری امت کی طرف سے ہے) اس سے مراد امت کے وہ زندہ لوگ ہیں جو عدم استطاعت کے سبب اس سال قربانی نہیں کر سکے تھے نہ کہ مردہ لوگ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir ibn 'Abdullah (RA): I witnessed sacrificing along with the Apostle of Allah (ﷺ) at the place of prayer. When he finished his sermon, he descended from his pulpit, and a ram was brought to him. The Apostle of Allah (ﷺ) slaughtered it with his hand, and said: In the name of Allah, Allah, is Most Great. This is from me and from those who did not sacrifice from my community.