Abu-Daud:
Funerals (Kitab Al-Jana'iz)
(Chapter: Walking In Front Of The Janazah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3180.
سیدنا مغیرہ بن شعبہ ؓ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”سوار آدمی جنازہ کے پیچھے چلے اور پیدل لوگ اس کے پیچھے، آگے، دائیں اور بائیں اس کے قریب قریب چلیں، اور بچہ جو ناقص پیدا ہو اس کی بھی نماز جنازہ پڑھی جائے اور اس کے ماں باپ کے لیے مغفرت اور رحمت کی دعا کی جائے۔“
تشریح:
1۔ (السقط) (سین پر تینوں حرکات کے ساتھ) اس سے مراد نا تمام بچہ ہے۔ 2۔ نا تمام پیدا ہونے والے بچے کی نماز جنازہ ادا کرنے کی بابت اختلاف ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ بچہ اگر زندگی کی علامت کے ساتھ پیدا نہ ہو تو بھی اس کی نمازجنازہ پڑھی جائےگی۔ یہی قول ابن سیرین اور ابن مسنیب کا ہے۔ امام احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے کہ اگر اس پر چار مہینے دس دن گزر چکے ہوں۔ اور اس میں روح پھونک دی گئی ہو۔ تو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائےگی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ جب پیدا ہو۔ اور علامت زندگی موجود ہوتو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائےگی۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اتنا مذید کہا ہے کہ اگر زندگی کی علامت نہ ہوتو نماز جنازہ نہیں پرھی جائے گی۔ اس کے قائل امام ابو حنیفہ۔ امام مالک۔ اوزاعی۔ اور شافعی ہیں۔ واللہ أعلم با لصواب۔ (عون المعبود) شیخ البانی نے امام احمد بن حنبل ؒ اور اسحاق بن راہویہ کے قول کو راحج قرار دیا ہے۔
انسانی زندگی کی ابتدا اور انتہا دونوں ہی دور رس اثرات کی حامل ہیں ‘جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو خاندان بھر میں خوشی و مسرت کا عجیب سماں پیدا ہو جاتا ہے ۔ ہر طرف مبارکباد اور خوشیوں کا بتادلہ ہوتا ہے ‘پھر وقت مقررہ پر اس کے رخصت ہوتے کا وقت آتا ہے تو ہر طرف غم کی فضا پھیل جاتی ہے اس نازک وقت میں اکثر و بیشتر لوگ کم علمی ‘جہالت اور شرکیہ معاشرتی فضا کی وجہ سے الیسے افعال میں مبتلا ہو جاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بنتے ہیں ‘یہ سلسلہ ہائے بدعات و شرک موت کے بعد بھی طویل عرصہ تک جاری رہتا ہے اور شکم پر ور جہلاء کی خوب چاندی رہتی ہے ۔
انسان جب بستر مرگ پر ہوتا ہے تو لواحقین بے بسی کی کیفیت سے دو چار ہوتے ہیں ‘حتی المقدار دوا دارو کرنے کے باوجود مریض لمحہ بہ لمحہ موت کے قریب ہوتا جاتا ہے تیمار داری کرنے والے دبے لفظوں میں مایوسی کا اظہار کرنے لگتے ہیں ‘لواحقین ہر حکیم ‘ ڈاکٹر حتی کہ شرکیہ دم جھاڑ اور مزاروں سے خاک شفا تک حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ شائد ہمارا مریض بچ جائے مگر جو وقت مقرر ہو چکا ‘ وہ آکے رہتا ہے (وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ)(اعراف:34) ’’ اور ہر گروہ کی ایک میعاد مقرر ہے سو جس وقت ان کی میعاد ِمعین آ جائے گی اس وقت ایک ساعت نہ پیچھے ہٹ سکیں گے اور نہ آ گے بڑھ سکیں گے۔‘‘
٭تیمار داری کی فضیلت: اسلام نے انسانوں کو باہمی محبت و مودت اور ہمدردی کا درس دیا ہے ‘ اس لیے جب کو ئی مسلمان بیمار ہو جائے تو اس کی تیمار داری کرنا مسلمان پر واجب ہے تیمار داری کرنے والا جہاں اپنے بھائی سے محبت اور الفت کا اظہار کرتا ہے اور باہمی تعلقات کو مضبوط بناتا ہے وہاں اپنے رب سے اجر عظیم کا حقدار بھی بنتا ہے ۔
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :’’ جب کوئی مسلمان شا م کے وقت کسی بھائی کی عیادت کے لیے نکلتا ہے تو ستر ہزار فرشتے بھی اس کے ساتھ نکلتے ہیں جو اس کے لیے صبح تک بخشش طلب کرتے رہتے ہیں اور جو کوئی صبح کے وقت عیادت کے لیے نکلے تو اس کے ساتھ ستر ہزار فرشتے نکلتے ہیں جو اس کے لیے بخشش مانگتے رہتے ہیں۔‘‘(سنن ابی داود ‘الجنائز‘حدیث:3098‘3099)
٭جنازہ میں شرکت کی فضیلت: مسلمان فوت ہوئے تو اس کے کفن و دفن کا انتظام کرنا ضروری ہے ۔ اس کا یہ عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہایت مقبول اور اعلیٰ اجر و ثواب کا حامل ہے ۔ جبکہ دوسری طرف موحد مسلمانوں کی التجا و دعا کو قبول کرتے ہوئے رب العالمین فوت ہوتے والے کی مغفرت فرما دیتا ہے ۔ اسی طرح یہ عمل طرفین کے لیے باعث رحمت بن جاتا ہے ۔ارشاد نبوی ہے:( «مَنْ شَهِدَ الجَنَازَةَ حَتَّى يُصَلِّيَ، فَلَهُ قِيرَاطٌ، وَمَنْ شَهِدَ حَتَّى تُدْفَنَ كَانَ لَهُ قِيرَاطَانِ»، قِيلَ: وَمَا القِيرَاطَانِ؟ قَالَ: «مِثْلُ الجَبَلَيْنِ العَظِيمَيْنِ»)(صحيح البخارى ~الجنائز~باب من انتظر حتى يدفن~حديث:1325)’’ جو شخص جنازے میں شامل ہوا نماز پڑھے اسے ایک قیراط ثواب ملتا ہے اور جو شخص میت کو دفن کرنے تک موجود رہتا ہے اسے دو قیراط ملتے ہیں ۔‘‘صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے حکم رسول! قیراطان کا مطلب کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا:’’دوقیراط کا ثواب دد عظیم پہاڑوں کے برابر ہے۔‘‘
٭میت کو نفع دینے والے چند امور: ہمارے معاشرے میں ایصال ثواب کے متعدد طریقے رائج ہیں جو اکثر و بیشتر شکم پروو‘ نیم خواندہ مذہبی رہنماؤں کی ایجاد ہیں ‘ طریقوں پر عمل کرنا بجائےثواب کے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا قوی سبب ہے ۔ سنت رسول ﷺ میں ایصال ثواب کے لیے درج امو ر بیان ہوئے ہیں(" إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ ")(صحيح مسلم ~ الوصية~ باب ما يلحق الإنسان من الثواب بعدوفاته~حديث:1631)مرنے کے بعد انسان کے اعمال (کے ثواب کا سلسلہ) منقطع و جاتا ہے لیکن تین چیزوں کا ثواب اسے پہنچتا رہتا ہے صدقۂ جاریہ ‘لوگوں کو فائدہ دینے والا علم اور نیک اولاد جو میت کے لیے دعا کرے۔‘‘
٭چند ایسے امور جو شریعت اسلامیہ میں ثابت نہیں ہیں:
٭مرنے والے کے سرہانے قرآن مجید‘ ادعیہ کا مجموعہ‘ یادیگر اور اد و وظائف رکھنا۔
٭چار پائی کے گرد ذکر و اذکار یا نعت خوانی کرنا۔
٭جنازے پر پھول ڈالنا‘مزین چادر ڈالنا یا قرآنی آیات والی چادر ڈالنا۔
٭جنازے لے جاتے ہوئے کلمہ شہادت وغیرہ کا ورد کرنا ، کرانا۔
٭میت کو بلا وجہ ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کرنا۔
٭قبر کو مزین بنانا اور آرائشی پتھروں سے آراستہ کرنا، یا قبر پر قرآنی آیات ،کلمہ یانام وغیرہ لکھنا۔
٭تدفین کے بعد قبرپر اذان دینا یا سورۂ بقرہ کی تلاوت کرنا۔
٭سوموار‘جمعرات یا دس محرم کو قبروں کی زیارت کے لیے خاص کرنا۔
٭قبروں پر نعت خوانی اور قوالی کرنا یا چراغ وغیرہ جلانا۔
٭ایصال ثواب کے لیے تیجہ‘ساتواں دسواں یا چالیسواں کرنا اور کھانے کا اہتمام کرنا۔
٭دوسرے یا تیسرے دن کل کروانا۔
٭اجرتی قاریوں سے قرآن خوانی کروانا اور سالانہ ختم دلوانا۔
سیدنا مغیرہ بن شعبہ ؓ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”سوار آدمی جنازہ کے پیچھے چلے اور پیدل لوگ اس کے پیچھے، آگے، دائیں اور بائیں اس کے قریب قریب چلیں، اور بچہ جو ناقص پیدا ہو اس کی بھی نماز جنازہ پڑھی جائے اور اس کے ماں باپ کے لیے مغفرت اور رحمت کی دعا کی جائے۔“
حدیث حاشیہ:
1۔ (السقط) (سین پر تینوں حرکات کے ساتھ) اس سے مراد نا تمام بچہ ہے۔ 2۔ نا تمام پیدا ہونے والے بچے کی نماز جنازہ ادا کرنے کی بابت اختلاف ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ بچہ اگر زندگی کی علامت کے ساتھ پیدا نہ ہو تو بھی اس کی نمازجنازہ پڑھی جائےگی۔ یہی قول ابن سیرین اور ابن مسنیب کا ہے۔ امام احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے کہ اگر اس پر چار مہینے دس دن گزر چکے ہوں۔ اور اس میں روح پھونک دی گئی ہو۔ تو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائےگی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ جب پیدا ہو۔ اور علامت زندگی موجود ہوتو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائےگی۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اتنا مذید کہا ہے کہ اگر زندگی کی علامت نہ ہوتو نماز جنازہ نہیں پرھی جائے گی۔ اس کے قائل امام ابو حنیفہ۔ امام مالک۔ اوزاعی۔ اور شافعی ہیں۔ واللہ أعلم با لصواب۔ (عون المعبود) شیخ البانی نے امام احمد بن حنبل ؒ اور اسحاق بن راہویہ کے قول کو راحج قرار دیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”سوار جنازے کے پیچھے چلے، اور پیدل چلنے والا جنازے کے پیچھے، آگے دائیں بائیں کسی بھی جانب جنازے کے قریب ہو کر چل سکتا ہے، اور کچے بچوں۱؎ کی نماز جنازہ پڑھی جائے اور ان کے والدین کے لیے رحمت و مغفرت کی دعا کی جائے۔“
حدیث حاشیہ:
۱؎: ایسے ببچے جو مدت حمل پوری ہونے سے پہلے پیدا ہو جائیں اور زندہ رہ کر مر جائیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Mughirah ibn Shu'bah (RA): (I think that the people of Ziyad informed me that he reported on the authority of the Prophet (ﷺ): A rider should go behind the bier, and those on foot should walk behind it, in front of it, on its right and on its left keeping near it. Prayer should be offered over an abortion and forgiveness and mercy supplicated for its parents.