Abu-Daud:
Funerals (Kitab Al-Jana'iz)
(Chapter: Levelling The Grave)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3220.
جناب قاسم ( ابن محمد بن ابی بکر الصدیق ؓ ) کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اماں جان ! مجھے رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے دو ساتھیوں کی قبریں دکھائیں ‘ تو انہوں نے میری خاطر پردہ ایک طرف کیا ۔ تین قبریں تھیں جو نہ تو اونچی تھیں اور نہ زمین کے ساتھ برابر ‘ بلکہ قدرے اونچی تھیں اور سرخ میدان کی کنکریاں ان پر ڈالی گئی تھیں ۔ جناب ابوعلی لؤلؤی ( راوی سنن ابی ابوداؤد ) سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی قبر آگے ہے اور ابوبکر ؓ ان کے سر کے پاس ہیں اور عمر ؓ ان کے پاؤں کے پاس یعنی سیدنا عمر ؓ کا سر رسول اللہ ﷺ کے قدموں میں ہے ۔
تشریح:
1۔یہ روایت ضعیف ہے۔اور چاہیے کہ قبر زمین سے بالشت بھر اونچی ہو۔2۔حضرہ عائشہ رضی اللہ عنہا میں قبروں کی ترتیب میں دو قول معروف ہیں۔ایک یوں ہے۔نبی کریم ﷺ ۔ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دوسرا یوں ہے۔نبی کریمﷺ عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ (بذل المجہود 189/14 مطبوعہ دارلباز)
انسانی زندگی کی ابتدا اور انتہا دونوں ہی دور رس اثرات کی حامل ہیں ‘جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو خاندان بھر میں خوشی و مسرت کا عجیب سماں پیدا ہو جاتا ہے ۔ ہر طرف مبارکباد اور خوشیوں کا بتادلہ ہوتا ہے ‘پھر وقت مقررہ پر اس کے رخصت ہوتے کا وقت آتا ہے تو ہر طرف غم کی فضا پھیل جاتی ہے اس نازک وقت میں اکثر و بیشتر لوگ کم علمی ‘جہالت اور شرکیہ معاشرتی فضا کی وجہ سے الیسے افعال میں مبتلا ہو جاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بنتے ہیں ‘یہ سلسلہ ہائے بدعات و شرک موت کے بعد بھی طویل عرصہ تک جاری رہتا ہے اور شکم پر ور جہلاء کی خوب چاندی رہتی ہے ۔
انسان جب بستر مرگ پر ہوتا ہے تو لواحقین بے بسی کی کیفیت سے دو چار ہوتے ہیں ‘حتی المقدار دوا دارو کرنے کے باوجود مریض لمحہ بہ لمحہ موت کے قریب ہوتا جاتا ہے تیمار داری کرنے والے دبے لفظوں میں مایوسی کا اظہار کرنے لگتے ہیں ‘لواحقین ہر حکیم ‘ ڈاکٹر حتی کہ شرکیہ دم جھاڑ اور مزاروں سے خاک شفا تک حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ شائد ہمارا مریض بچ جائے مگر جو وقت مقرر ہو چکا ‘ وہ آکے رہتا ہے (وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ)(اعراف:34) ’’ اور ہر گروہ کی ایک میعاد مقرر ہے سو جس وقت ان کی میعاد ِمعین آ جائے گی اس وقت ایک ساعت نہ پیچھے ہٹ سکیں گے اور نہ آ گے بڑھ سکیں گے۔‘‘
٭تیمار داری کی فضیلت: اسلام نے انسانوں کو باہمی محبت و مودت اور ہمدردی کا درس دیا ہے ‘ اس لیے جب کو ئی مسلمان بیمار ہو جائے تو اس کی تیمار داری کرنا مسلمان پر واجب ہے تیمار داری کرنے والا جہاں اپنے بھائی سے محبت اور الفت کا اظہار کرتا ہے اور باہمی تعلقات کو مضبوط بناتا ہے وہاں اپنے رب سے اجر عظیم کا حقدار بھی بنتا ہے ۔
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :’’ جب کوئی مسلمان شا م کے وقت کسی بھائی کی عیادت کے لیے نکلتا ہے تو ستر ہزار فرشتے بھی اس کے ساتھ نکلتے ہیں جو اس کے لیے صبح تک بخشش طلب کرتے رہتے ہیں اور جو کوئی صبح کے وقت عیادت کے لیے نکلے تو اس کے ساتھ ستر ہزار فرشتے نکلتے ہیں جو اس کے لیے بخشش مانگتے رہتے ہیں۔‘‘(سنن ابی داود ‘الجنائز‘حدیث:3098‘3099)
٭جنازہ میں شرکت کی فضیلت: مسلمان فوت ہوئے تو اس کے کفن و دفن کا انتظام کرنا ضروری ہے ۔ اس کا یہ عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہایت مقبول اور اعلیٰ اجر و ثواب کا حامل ہے ۔ جبکہ دوسری طرف موحد مسلمانوں کی التجا و دعا کو قبول کرتے ہوئے رب العالمین فوت ہوتے والے کی مغفرت فرما دیتا ہے ۔ اسی طرح یہ عمل طرفین کے لیے باعث رحمت بن جاتا ہے ۔ارشاد نبوی ہے:( «مَنْ شَهِدَ الجَنَازَةَ حَتَّى يُصَلِّيَ، فَلَهُ قِيرَاطٌ، وَمَنْ شَهِدَ حَتَّى تُدْفَنَ كَانَ لَهُ قِيرَاطَانِ»، قِيلَ: وَمَا القِيرَاطَانِ؟ قَالَ: «مِثْلُ الجَبَلَيْنِ العَظِيمَيْنِ»)(صحيح البخارى ~الجنائز~باب من انتظر حتى يدفن~حديث:1325)’’ جو شخص جنازے میں شامل ہوا نماز پڑھے اسے ایک قیراط ثواب ملتا ہے اور جو شخص میت کو دفن کرنے تک موجود رہتا ہے اسے دو قیراط ملتے ہیں ۔‘‘صحابہ نے عرض کیا : اللہ کے حکم رسول! قیراطان کا مطلب کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا:’’دوقیراط کا ثواب دد عظیم پہاڑوں کے برابر ہے۔‘‘
٭میت کو نفع دینے والے چند امور: ہمارے معاشرے میں ایصال ثواب کے متعدد طریقے رائج ہیں جو اکثر و بیشتر شکم پروو‘ نیم خواندہ مذہبی رہنماؤں کی ایجاد ہیں ‘ طریقوں پر عمل کرنا بجائےثواب کے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا قوی سبب ہے ۔ سنت رسول ﷺ میں ایصال ثواب کے لیے درج امو ر بیان ہوئے ہیں(" إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ ")(صحيح مسلم ~ الوصية~ باب ما يلحق الإنسان من الثواب بعدوفاته~حديث:1631)مرنے کے بعد انسان کے اعمال (کے ثواب کا سلسلہ) منقطع و جاتا ہے لیکن تین چیزوں کا ثواب اسے پہنچتا رہتا ہے صدقۂ جاریہ ‘لوگوں کو فائدہ دینے والا علم اور نیک اولاد جو میت کے لیے دعا کرے۔‘‘
٭چند ایسے امور جو شریعت اسلامیہ میں ثابت نہیں ہیں:
٭مرنے والے کے سرہانے قرآن مجید‘ ادعیہ کا مجموعہ‘ یادیگر اور اد و وظائف رکھنا۔
٭چار پائی کے گرد ذکر و اذکار یا نعت خوانی کرنا۔
٭جنازے پر پھول ڈالنا‘مزین چادر ڈالنا یا قرآنی آیات والی چادر ڈالنا۔
٭جنازے لے جاتے ہوئے کلمہ شہادت وغیرہ کا ورد کرنا ، کرانا۔
٭میت کو بلا وجہ ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کرنا۔
٭قبر کو مزین بنانا اور آرائشی پتھروں سے آراستہ کرنا، یا قبر پر قرآنی آیات ،کلمہ یانام وغیرہ لکھنا۔
٭تدفین کے بعد قبرپر اذان دینا یا سورۂ بقرہ کی تلاوت کرنا۔
٭سوموار‘جمعرات یا دس محرم کو قبروں کی زیارت کے لیے خاص کرنا۔
٭قبروں پر نعت خوانی اور قوالی کرنا یا چراغ وغیرہ جلانا۔
٭ایصال ثواب کے لیے تیجہ‘ساتواں دسواں یا چالیسواں کرنا اور کھانے کا اہتمام کرنا۔
٭دوسرے یا تیسرے دن کل کروانا۔
٭اجرتی قاریوں سے قرآن خوانی کروانا اور سالانہ ختم دلوانا۔
جناب قاسم ( ابن محمد بن ابی بکر الصدیق ؓ ) کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اماں جان ! مجھے رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے دو ساتھیوں کی قبریں دکھائیں ‘ تو انہوں نے میری خاطر پردہ ایک طرف کیا ۔ تین قبریں تھیں جو نہ تو اونچی تھیں اور نہ زمین کے ساتھ برابر ‘ بلکہ قدرے اونچی تھیں اور سرخ میدان کی کنکریاں ان پر ڈالی گئی تھیں ۔ جناب ابوعلی لؤلؤی ( راوی سنن ابی ابوداؤد ) سے منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی قبر آگے ہے اور ابوبکر ؓ ان کے سر کے پاس ہیں اور عمر ؓ ان کے پاؤں کے پاس یعنی سیدنا عمر ؓ کا سر رسول اللہ ﷺ کے قدموں میں ہے ۔
حدیث حاشیہ:
1۔یہ روایت ضعیف ہے۔اور چاہیے کہ قبر زمین سے بالشت بھر اونچی ہو۔2۔حضرہ عائشہ رضی اللہ عنہا میں قبروں کی ترتیب میں دو قول معروف ہیں۔ایک یوں ہے۔نبی کریم ﷺ ۔ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دوسرا یوں ہے۔نبی کریمﷺ عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ (بذل المجہود 189/14 مطبوعہ دارلباز)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
قاسم کہتے ہیں میں ام المؤمنین عائشہ ؓ کے پاس آیا اور عرض کیا : اے اماں ! نبی اکرم ﷺ اور آپ کے دونوں ساتھیوں کی قبریں میرے لیے کھول دیجئیے ( میں ان کا دیدار کروں گا ) تو انہوں نے میرے لیے تینوں قبریں کھول دیں ، وہ قبریں نہ بہت بلند تھیں اور نہ ہی بالکل پست ، زمین سے ملی ہوئی ( بالشت بالشت بھر بلند تھیں ) اور مدینہ کے اردگرد کے میدان کی سرخ کنکریاں ان پر بچھی ہوئی تھیں ۔ ابوعلی کہتے ہیں : کہا جاتا ہے رسول اللہ ﷺ آگے ہیں ، اور ابوبکر ؓ آپ کے سر مبارک کے پاس ہیں ، اور عمر ؓ آپ کے قدموں کے پاس ، عمر ؓ کا سر رسول اللہ ﷺ کے مبارک قدموں کے پاس ہے ۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Qasim ibn Muhammad ibn Abu Bakr (RA):
I said to 'Aishah (RA)! Mother, show me the grave of the Apostle of Allah (ﷺ) and his two Companions (RA). She showed me three graves which were neither high nor low, but were spread with soft red pebbles in an open space.