مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3378.
سیدنا ابو سعید خدری ؓ نے نبی کریم ﷺ سے یہ حدیث روایت کی اور مزید کہا اشتمال الصماء یہ ہے کہ انسان ایک کپڑے میں اس طرح سے لپٹ جائے کہ کپڑے کے دونوں کناروں کو بائیں کندھے پر ڈال لے اور اپنی دائیں جانب کو کھلا رکھے۔ اور بیع منابذہ یہ ہے کہ یوں کہے: جب میں تیری طرف یہ کپڑا پھینک دوں تو بیع لازم ہو گئی۔ اور بیع ملامسہ یہ ہے کہ چیز کو صرف اپنا ہاتھ لگا دے، اسے کھول کر یا الٹ پلٹ کر نہ دیکھ سکے اور جب اسے ہاتھ لگا دیا تو بیع لازم ہو گئی۔
تشریح:
1۔ (اشتمال الصماء) کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ انسان سرسے پائوں تک ایک ہی کپڑے میں لپٹ جائے۔ اور کوئی ہاتھ پائوں اس سے باہر نہ ہو۔ اس میں کسی بھی جلدی میں نقصان ہوسکتا ہے۔ممکن ہے گرجائے اور سنبھل نہ سکے۔ یا کسی کیڑے مکوڑوں وغیرہ سے اپنا دفاع نہ کرسکے وغیرہ۔ 2۔ بیع منابذہ کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ جانبین اپنی اپنی چیز ایک دوسرے کیطرف پھینک کر تبادلہ کرلیں اور انہیں دیکھنے بھالنے سوچنے کاحق نہ ہو۔ 3۔ بیع ملامسہ میں ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ چیز کو محض ہاتھ لگانے ہی پر بیع کو پختہ سمجھ لیا جائے۔ یا اندھیرے میں سودا ہو اور چھونے سے بیع لازم ہوجائے او ر انسان چیز کو دیکھ بھال نہ سکے۔ الغرض اسلام نے ان امور سے منع فرما دیا ہے جن میں دھوکا اور فریب کا اندیشہ ہوسکتا ہے۔
تجارت‘نفع کی امید پر اشیائے ضرورت خریدنے اور جہاں ضرورت ہو وہاں لے جا کر بیچنے کا نام ہے ۔ یہ انسانی ضروریات کو پورا کرنے کا اہم ذریعہ ہے ۔علم معیشت کے مطابق تجارت دولت کی گردش اور روزگار کی فراہمی میں اہم ترین کر دار ادا کرتی ہے اسلام نے صدق و امانت کی شرط کے ساتھ اسے اونچے درجے کا عمل صالح قرار دیا ہے ۔حرص اور لالچ کے مارے ہوئے لوگوں نے دنیا کے ہر اچھے عمل کی طرح تجارت جیسے مفید علم کو بھی لوٹ مار ‘دوسروں کا حق غضب کرنے ‘ناجائز مفاد حاصل کرنے اور دھوکے سے دولت سمیٹنے کا ذریعہ بنایا ہوا ہے ۔ جدید سوسائٹی نے تو بعض استحصالی طریقوں (مثلاًسود) کو اپنی معیشت کا بنیادی اصول بنا لیا ہے ۔رسول اللہ ﷺ نے تجارت کے نام پر لوٹ مار کے کھلے راستوں کے ساتھ ساتھ ان تمام مخفی استحصالی راستوں کا دروازہ بھی بند کر دیا جو تجارت کو عدل سے ہٹا کر ظلم وعدوان پر استوار کرتے ہیں۔ تاریخ میں حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پہلی اور آخری ہستی ہیں جنہوں نے زندگی کے باقی شعبوں کی طرح عمل تجارت کو استحصال او رلوٹ مار سے مکمل طور پر پاک صاف کر دیا ۔آپ ﷺ نے انتہائی باریک بینی سے رائج نظام تجارت کا جائزہ لے کر وحی کی روشنی میں اس کی قطعی حدود کا تعین فرما دیا۔ ان حدود کے اندر رہتے ہوئے عمل تجارت ہر طرح کے ظلم و جور سے پاک رہتا ہے اور اس کی مغفرت کا دائرہ بے حد وسیع ہو جاتا ہے ۔تجارت کے عمل میں خریدار ‘فروخت کرنے والا‘مال تجارت اور معاہدہ ٔ تجارت بنیادی اجزا ہیں۔معاہدہ تجارت کے حوالے سے قرآن مجید نے ’’تراضى‘‘ کو بنیادی اصول قرار دیا ہے ۔ تراضى ‘بیع کے ہر پہلو پر مطلع ہو کر دونوں فریقوں کے اپنے اپنے آزاد فیصلے سے رضا مند ہونے کا نام ہے رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کے ذریعے سے تجارت کے مندرجہ ذیل بنیادی اصول سامنے آتے ہیں:
(1) تجارت کی باہمی تراضى (باہمی رضا مندی) ہے ۔ اگر کسی طور پر باہمی رضا مندی میں خلل موجود ہو تو بیع جائز نہیں ہو گی۔
(2) معاہدۂ بیع کے دونوں فریق (خریدار ‘فروخت کرنے والا) فیصلے میں آزاد ‘ہر پہلو پر مطلع اور معاہدۂ بیع کے حقیقی نتائج سے آگاہ ہوتے چاہییں اگر ایسا نہیں تو تجارت کا عمل درست نہ ہوگا۔
(3) معاہدہ ٔ بیع میں ایسی شرائط کی کوئی گنجائش نہیں جو معاہدہ کو خواہ مخواہ پیچیدہ بناتی ہیں یا کسی فریق کر ناروا پابندیوں میں جکڑتی ہیں یا کسی ایک فریق کے جائز مفادات کی قیمت پر دوسرے کو فائدہ پہنچاتی ہیں۔ایسی شرائط سے معاہدۂ بیع فاسد ہو جائے گا۔
(4) اگر ایک فریق نے دوسرے کے بے خبر رکھا ‘دھوکا دیا یا کسی طور پر اسے مجبور کیا تو بیع جائز نہ ہوگی۔
(5) اگر مال تجارت کی مقدار یا اس کی افادیت کے تعین میں شبہ ہو‘اس کی بنیادی صفات کے بارے میں کچھ پہلو مبہم ہوں‘ اس کا حصول اور اس سے فائدہ اٹھانے کا معاملہ مخدوش ہو یا اس میں کوئی ایسی خرابی پیدا ہو چکی ہو جو پوری طرح ظاہر نہیں ہوئی تو ایسی بیع جائز نہیں ہو گی۔
(6) مال تجارت حلال‘کسی نہ کسی طرح فائدہ اور ہر قسم کے خفیہ عیب سے پاک ہوتا چاہیے اگر سرے سے مال تجارت حرم یا غیر مفید ہو یا اس کے عیب کو چھپایا گیا ہوتو اس کی تجارت رواقرار نہیں دی جائے گی۔
(7) تجارت ایک مثبت عمل ہے اس سے تمام فریقوں کا مفاد محفوظ ہونا چاہیے ‘اگر معاہدۂ بیع محسوس یا غیر محسوس طریق پر کسی ایک فریق کے استحصال پر منتج ہو سکتا ہو یا ظاہراً با ہمی رضا مندی کے باوجود محسوس یا غیر محسوس طریقے سے ظلم کا سبب ہو تو بیع درست نہیں ہوگی ۔
(8) اگر خریدو فروخت کا عمل مکمل ہونے کے بعد کسی فریق کو اپنی آمادگی حتمی محسوس نہیں ہوئی اور وہ بیع سے پیچھے ہٹنا چاہتا ہو تو انصاف اور تراضی کا تقاضہ یہ ہے کہ اسے ہٹنے کا موقع دیا جائے۔
(9) اگر باہمی خریدوفروخت میں سودی معاملات داخل ہو جائیں تو پھر بھی تجارت جائز نہ ہوگی۔
رسول اللہﷺ نے بیوع کے حوالے سے جو حدود متعین فرمائی ہیں ان کے ذریعے سے خریدوفروخت کا پورا نظام ہر قسم کے ظلم و جور سے پاک اور مکمل طور پر انسانی فائدے کا ضامن بن جاتا ہے ان کے نتیجے میں بازار یا منڈی کا ماحول حد درجہ سازگار ہو جاتا ہے اور معیشت میں بے انتہا وسعت پیدا ہو جاتی ہے ۔ تاریخی طور پر یہ ایک ثابت شدہ امر ہے کہ جس سوسائٹی میں بھی تجارت کے بنیادی اسلامی اصولوں پر عمل ہوتا ہے‘ وہاں معیشت بہت مستحکم ہو جاتی ہے۔امام ابوداود نے اپنی سنن میں جو احادیث جمع کی ہیں ان کے ذریعے سے اسلام کے نظام خریدو فروخت کے نمایاں پہلو واضح ہو جاتے ہیں۔
سیدنا ابو سعید خدری ؓ نے نبی کریم ﷺ سے یہ حدیث روایت کی اور مزید کہا اشتمال الصماء یہ ہے کہ انسان ایک کپڑے میں اس طرح سے لپٹ جائے کہ کپڑے کے دونوں کناروں کو بائیں کندھے پر ڈال لے اور اپنی دائیں جانب کو کھلا رکھے۔ اور بیع منابذہ یہ ہے کہ یوں کہے: جب میں تیری طرف یہ کپڑا پھینک دوں تو بیع لازم ہو گئی۔ اور بیع ملامسہ یہ ہے کہ چیز کو صرف اپنا ہاتھ لگا دے، اسے کھول کر یا الٹ پلٹ کر نہ دیکھ سکے اور جب اسے ہاتھ لگا دیا تو بیع لازم ہو گئی۔
حدیث حاشیہ:
1۔ (اشتمال الصماء) کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ انسان سرسے پائوں تک ایک ہی کپڑے میں لپٹ جائے۔ اور کوئی ہاتھ پائوں اس سے باہر نہ ہو۔ اس میں کسی بھی جلدی میں نقصان ہوسکتا ہے۔ممکن ہے گرجائے اور سنبھل نہ سکے۔ یا کسی کیڑے مکوڑوں وغیرہ سے اپنا دفاع نہ کرسکے وغیرہ۔ 2۔ بیع منابذہ کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ جانبین اپنی اپنی چیز ایک دوسرے کیطرف پھینک کر تبادلہ کرلیں اور انہیں دیکھنے بھالنے سوچنے کاحق نہ ہو۔ 3۔ بیع ملامسہ میں ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ چیز کو محض ہاتھ لگانے ہی پر بیع کو پختہ سمجھ لیا جائے۔ یا اندھیرے میں سودا ہو اور چھونے سے بیع لازم ہوجائے او ر انسان چیز کو دیکھ بھال نہ سکے۔ الغرض اسلام نے ان امور سے منع فرما دیا ہے جن میں دھوکا اور فریب کا اندیشہ ہوسکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
اس سند سے بھی بواسطہ ابو سعید خدری ؓ نبی اکرم ﷺ سے یہی حدیث مروی ہے البتہ اس میں اتنا اضافہ کیا ہے کہ اشتمال صماء یہ ہے کہ ایک کپڑا سارے بدن پر لپیٹ لے، اور کپڑے کے دونوں کنارے اپنے بائیں کندھے پر ڈال لے، اور اس کا داہنا پہلو کھلا رہے، اور منابذہ یہ ہے کہ بائع یہ کہے کہ جب میں یہ کپڑا تیری طرف پھینک دوں تو بیع لازم ہو جائے گی، اور ملامسہ یہ ہے کہ ہاتھ سے چھو لے نہ اسے کھولے اور نہ الٹ پلٹ کر دیکھے تو جب اس نے چھو لیا تو بیع لازم ہو گئی۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
The tradition mentioned above has also been reported by Abu Sa'id al-Khudri (RA) from the Prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) through a different chain of narrators. This version adds: "Wearing the samma' means that a man puts his garment over his left shoulder and keeps his right side uncovered. Munabadhah means that a man says (to another): If I throw this garment to you, the sale will be certain. Mulamasah means that a man touches it (another's garment) with his hand and neither he unfolds it nor turns it over. When he touched it, the sale becomes binding.