مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3646.
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے منقول ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے میں جو کچھ سنتا وہ سب لکھ لیا کرتا تھا تاکہ اسے حفظ کر لوں۔ تو (بعض) قریشیوں نے مجھے منع کیا۔ انہوں نے کہا: تو ہر بات، جو سنتا ہے، لکھ لیتا ہے، حالانکہ رسول اللہ ﷺ ایک انسان ہیں غصے اور خوشی (دونوں حالتوں) میں گفتگو کرتے ہیں، تو میں نے لکھنا موقوف کر دیا اور یہ بات رسول اللہ ﷺ سے عرض کی۔ تو آپ ﷺ نے اپنے دہن مبارک کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ”لکھا کرو، قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس سے سوائے حق کے اور کچھ نکلتا ہی نہیں ہے۔“
تشریح:
فائدہ۔ رسول ہر حال میں رسول اور حجت ہوتے ہیں۔ان کی پوری زندگی ہرحال میں امت کے لئے اتباع نمونہ ہوتی ہے۔اورپھر محمد رسول اللہ ﷺ توسید الرسل ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی بے شمار وان گنت نعمتوں میں سے علم ایک عظیم نعمت ہے علم ہی کی بدولت دین و دنیا کی کامیابی و کامرانی نصیب ہوتی ہے۔دنیا کی قیادت اور آخرت کی سیادت علم ہی پر موقوف ہے دنیا میں جتنے بھی نامور ہوئے ہیں وہ اپنے علم و عمل ہی کی بدولت اپنے ہم عنصروں پر فوقیت کے حقدار ٹھہرے علم وہ نور ہے جس سے جہالت کی گمراہیاں دور ہوتی ہیں ۔انسان حقوق اللہ اور حقوق العباد کو پہچان کر ادائیگی کے قابل ہوتا ہے اگر علم کی روشنی نہ ہو تو انسان ہر دوقسم کے حقوق ضائع کر کے دنیا و آخرت کی رسوائیاں سمیٹ لیتا ہے علم کی اسی فضیلت کی بدولت پروردگار عالم کو جاہل پر فوقیت دی ہے ارشاد ہے(قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ)
’’کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں بے شک عقل مند ہی نصیحت پکڑتے ہیں۔‘‘
علم کی اعلیٰ وارفع شان کا پتہ اس سے بھی چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء و رسل پر علم کا خصوصی فضل کر کے اسے بطور احسان جتلایا ہے اور اس نعمت کے عطا کرنے پر خصوصی طور پر اس ے ذکر کیا ہے ۔نبی آخرالزمانﷺ کو یہ نعمت عطا کی تو فرمایا(وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا) (النساء:4/113) ’’اللہ تعالیٰ نے تجھ پر کتاب و حکمت اتاری ہے اور تجھے وہ سکھایا ہے جسے تو جانتا نہیں تھا اور اللہ تعالیٰ کا تجھ پر بڑا بھاری فضل ہے۔‘‘
یوسف پر اس نعمت کے فیضان کو ان الفاظ میں ذکر کیا(وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ)(یوسف:12/22)
’’اور جب(یوسف) پختگی کی عمر کو پہنچ گئے تو ہم نے اسے قوتِ فیصلہ اور علم دیا‘ ہم نیک کاروں کو اسی طرح بدلہ دیتے ہیں۔‘‘
عیسیٰ روح اللہ کو اپنی نعمت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:( يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِي عَلَيْكَ وَعَلَى وَالِدَتِكَ إِذْ أَيَّدْتُكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا وَإِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ)(المائدہ:5/110)
’’اے عیسیٰ ابن مریم !میرا انعام یاد کرو جوتم پر اور تمہاری والدہ پر ہوا ‘جب میں نے تم کو روح القدس سے تائید دی تم لوگوں سے کلام کرتے تھے گود میں بھی اور بڑی عمر میں بھی ‘اور جب کہ میں نے تم کو کتاب اور حکمت کی باتیں اور تورات اور انجیل کی تعلیم دی۔‘‘
اہل علم ہی وہ خوش نصیب ہیں جو حقوق اللہ کو جانتے ہیں‘ لوگوں کو ان کی تعلیم دیتے ہیں اور خود بھی عمل پیرا ہوتے ہیں ،لہذا وہ جانتے ہیں کہ مشکل کشا ‘گنج بخش ‘دستگیر‘حاجت روا اور داتا صرف وہی ذات الہی ہے ‘ان کی اس شہادت کو مالک جہاں نے نہایت شرف و منزلت سے نوازہ ہے ،ارشاد ہے:( شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ)(آل عمران:3/18)
’’اللہ تعالیٰ ‘فرشتے اور اہل علم اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں۔وہ انصاف کے ساتھ حکومت کر رہا ہے اس کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں ہے وہ زبر دست حکمت والا ہے ۔‘‘
اس طرح اللہ تعالیٰ نے اہل علم کی گواہی کو اپنی گواہی کے ساتھ ملا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عظیم و بر تر بنا دیا ۔ علم وہ ومنفرد نعمت ہے جس میں اضافے کے حصول کے لیے تاجدار مدینہ کو اپنے رب سے خصوصی دعا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ارشاد ہے() (طہ :20/114)
’’اور (اے نبی)جب تک تجھ پر قرآن کا ترنا پورا نہ ہو اس کے پڑھنے میں جلدی نہ کیا کر اور دعا کر میرے رب میرے علم میں اضافہ فرما۔‘‘
رسول اللہ ﷺنے نا صرف خود علم میں اضافے کے لیے التجائیں کی ہیں بلکہ اپنی امت کو بھی علم کے حصول کے لیے ترغیب دلائی ہے ،لہذا آپ کا ارشاد گرامی ہے:
[فضل العالم على العابد كفضلي على أدناكم إن الله عز وجل وملائكته وأهل السموات والأرض حتى النملة في جحرها وحتى الحوت ليصلون على معلم الناس الخير ](صحيح الجامع :حديث634 او جامع الترمذى ،العلم ،باب ما جاء فى فضل الفقه على العبادة ،حديث:2685)’’بے شک اللہ تعالیٰ لوگوں کو خیر کی تعلیم دینے والے پر اپنی خصوصی رحمتیں نازل کرتا ہے ‘اس کے فرشتے ‘اور زمین میں بسنے والی تمام مخلوقات حتی کہ چیونٹی اپنے بل میں اور مچھلی (سمندر میں) اس کے لیے دعائے خیر کرتی ہے۔‘‘نیز فرمایا:
[فَضْلُ العَالِمِ عَلَى العَابِدِ كَفَضْلِي عَلَى أَدْنَاكُمْ](صحيح الجامع،حديث:4089 و جامع الترمذى،العلم،باب ماجاء فى فضل الفقه على العبادة،حديث:2685)
’’عالم کی عابد پر اسی طرح فضیلت ہے جیسے میری تم میں سے کم تر شخص پر ہے۔‘‘
عالم ربانی کے لیے اس سے بڑھ کر اور فضل و کرم ہو سکتا ہے ؟کیا علم سے بڑھ کر بھی کسی اور چیز کی قدرومنزلت ہو سکتی ہے ؟
علم کی اسی فضیلت کی بدولت اہل علم نے دن رات کے حصول کے لیے محنت شاقہ کی ہے ۔ہزاروں میل کا سفر اس کے حصول کے لیے کیا ہے دنیا کی ہر نعمت سے بڑھ کر اس کا اکرام کیا ہے تب یہ علم اپنی تمام تر روشنائیوں سمیت ہم تک منتقل ہوا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں علم کی قدر کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے منقول ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے میں جو کچھ سنتا وہ سب لکھ لیا کرتا تھا تاکہ اسے حفظ کر لوں۔ تو (بعض) قریشیوں نے مجھے منع کیا۔ انہوں نے کہا: تو ہر بات، جو سنتا ہے، لکھ لیتا ہے، حالانکہ رسول اللہ ﷺ ایک انسان ہیں غصے اور خوشی (دونوں حالتوں) میں گفتگو کرتے ہیں، تو میں نے لکھنا موقوف کر دیا اور یہ بات رسول اللہ ﷺ سے عرض کی۔ تو آپ ﷺ نے اپنے دہن مبارک کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ”لکھا کرو، قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس سے سوائے حق کے اور کچھ نکلتا ہی نہیں ہے۔“
حدیث حاشیہ:
فائدہ۔ رسول ہر حال میں رسول اور حجت ہوتے ہیں۔ان کی پوری زندگی ہرحال میں امت کے لئے اتباع نمونہ ہوتی ہے۔اورپھر محمد رسول اللہ ﷺ توسید الرسل ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمرو ؓ کہتے ہیں میں ہر اس حدیث کو جو رسول اللہ ﷺ سے سنتا یاد رکھنے کے لیے لکھ لیتا، تو قریش کے لوگوں نے مجھے لکھنے سے منع کر دیا، اور کہا: کیا تم رسول اللہ ﷺ سے ہر سنی ہوئی بات کو لکھ لیتے ہو؟ حالانکہ رسول اللہ ﷺ بشر ہیں، غصے اور خوشی دونوں حالتوں میں باتیں کرتے ہیں، تو میں نے لکھنا چھوڑ دیا، پھر رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا، آپ ﷺ نے اپنی انگلی سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا: ”لکھا کرو، قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس سے حق بات کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn 'Amr ibn al-'As (RA): I used to write everything which I heard from the Apostle of Allah (ﷺ). I intended (by it) to memorise it. The Quraysh prohibited me saying: Do you write everything that you hear from him while the Apostle of Allah (ﷺ) is a human being: he speaks in anger and pleasure? So I stopped writing, and mentioned it to the Apostle of Allah (ﷺ). He signalled with his finger to him mouth and said: Write, by Him in Whose hand my soul lies, only right comes out from it.