Abu-Daud:
Drinks (Kitab Al-Ashribah)
(Chapter: What has been reported regarding Intoxicants)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
3681.
سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس چیز کی کثیر مقدار نشہ آور ہو اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے۔“
تشریح:
اس حدیث مبارک میں صراحت کر دی گئی ہے۔ کہ ہر نشہ آور چیز اس کی نوعیت خواہ کچھ ہو۔ وہ مقدار میں تھوڑی ہو یا زیادہ حرام ہی ہے۔ اور یہ کہنا یا سمجھنا کہ انگور کی ہو تو حرام ہے۔ اور دوسری قسم کی ہو تو اس کا اتنی مقدار میں پینا حلال ہے۔ جس سے نشہ پیدا نہ ہو۔ فرمان رسول ﷺ کے خلاف ہے۔ اس لئے محقق اطباء اور علمائے محدثین کے نزدیک ہومیو پیتھک۔ایلو پیتھک۔ یا یونانی ادویہ جن میں الکحل۔ افیون۔ شراب یا کوئی بھی اسی چیز جسے اللہ تعالیٰ نے حرام کردیا ہو۔ اس سے علاج کرنا حرام ہے۔ اور جمہورعلماء کا یہی مذہب ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں تعلیقاً اور معجم کبیر میں مرفوعاً حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا! إن الله لم يجعل شفاءَكُم فيما حَرَّمَ عليكُم(صحیح البخاري، الأشربة، قبل حدیث: 5614 والمعجم الکبیر للطبراني: 345/9) نیز ان جیسی دیگر روایات اور نصوص سے صراحت کے ساتھ معلوم ہوتا ہے۔ کہ پلید اور حرام چیزوں کے ساتھ علاج ممنوع ہے۔ بعض علماء نے حرام اور پلید چیزوں سے علاج کو جائز قرار دیا ہے۔ تو انہوں نے اسے مضطر کےلئے مردار اور خون کے استعمال کے جواز پر قیاس کیا ہے۔ لیکن نص کے خلاف ہونے کی وجہ سے یہ قیاس کمزور ہے۔ لہذا یہ قیاس مع الفارق ہے۔ کیونکہ مردار اور خون کھانے سے ضرورت زائل ہوجاتی ہے۔ اور اس سے جان کی حفاظت ہوجاتی ہے۔ جبکہ حرام اور پلید چیز کے استعمال سے شفا یقینی نہیں۔ اور ضروری نہیں کہ مرض کا ازالہ ہوجائے۔ بلکہ رسول اللہ ﷺنے تو یہ خبردی ہے کہ یہ دوا نہیں۔ لہذا اس سے علاج بھی صحیح نہیں۔
٭الأطعمة کی تعریف :’’اطعمة‘‘ طعام کی جمع ہے ،قاموس میں اس کے معنی کیے گئے ہیں :’’اَلْبُرُّ وَمَا يُو كَلُ‘‘ گندم اور جو چیز کھائی جاتی ہے اسے ’’طعام‘‘ کہا جاتا ہے بعض علمائے لغت کے نزدیک ’’طعام ‘‘ سے مراد صرف کھنانا ہی نہیں بلکہ بعض اوقات پینے والی چیز پر بھی ’’طعام‘‘ کا اطلاق ہوتا ہے ،جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(إِنَّ اللَّهَ مُبْتَلِيكُمْ بِنَهَرٍ فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَيْسَ مِنِّي وَمَنْ لَمْ يَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّي) ’’بےشک اللہ تعالیٰ تمہیں ایک نہر سے آزمانے والا ہے جس نے اس پانی پی لیا وہ مجھ سے نہیں اور جس نے اس کا پانی نہ چکھا ‘تو یقیناً وہ میرا ہے ۔‘‘(البقرہ:249)
اسی طرح ارشاد نبوی ہے [زَمْزَمُ طَعَأمُ طُعْمٍ وَ شِفَاءُ سُقْمٍ]
’’زمزم کھانے والے کا کھانا ہے اور بیمار کے لیے شفا ہے ۔‘‘(مجمع الزوائد:3/286 والمعجم الکبیر للطبرانی:11/98)
٭أشربة کی لغوی تعریف :’’ أشربة ‘‘ شراب کی جمع ہے ‘یعنی ہر بہنے والی چیز جسے پیا جائے وہ شراب کہلاتی ہے ،ہمارے ہاں اُسے مشروب کہا جاتا ہے۔
٭کھانے پینے کی مشروعیت :اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے بے شمار نعمتیں بطور خوراک پیدا کی ہیں ۔پھر مزید رحمت فرماتے ہوئے ہر اس کھانے ‘پینے کی چیز کو حرام قرار دیا جو انسانی صحت اور عقل کے لیے نقصان دہ تھی اور ہر وہ چیز جو مفید تھی اسے حلال رکھا‘ خود وہ دانے ہوں ‘پھل ہوں یا جانوروں کی شکل میں ہوں،لہذا رشاد ربانی ہے () ’’اللہ تعالیٰ کے رزق سے کھاؤ اور پیو۔‘‘(البقرہ:249)
کھانے اور پینے کا بنیادی مقصد انسانی بقا ہے تا کہ انسان اپنے رب کی اطاعت اور فرمانبرداری کے لیے ہر دم تیار ہو ۔ اس کی صحت اس کا بھر پور ساتھ دے تا کہ وہ اطاعت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکے اس لیے صرف حلال اور مفید چیزیں کھانے کی پابندی عائد کر دی ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے(يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا)
’’اے لوگو!تم ان چیزوں میں سے کھاؤ جو زمین میں حلال اور پاکیزہ ہیں۔‘‘(البقرہ:168)
رحمت دو عالم ﷺ نے امت کی رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا :
[ كُلُوا وَاشْرَبُوا وَالبَسُوا وَتَصَدَّقُوا، فِي غَيْرِ إِسْرَافٍ وَلاَ مَخِيلَةٍ...] ’’کھاؤ پیو اور صدقہ خیرات کرو‘بغیر اسراف و تکبر و غرور کیے لباس پہنو ،کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر اپنی نعمتوں کا اثر دیکھنا پسند کرتا ہے ۔‘‘(مسند احمد:2/181‘182 نیز امام بخاری نے بھی اسے کتاب اللباس کے شروع میں معلقاً بیان کیا ہے)
٭کھانے اور پینے کے چند نبوی آداب: کھانے اور پینے کا بنیادی قانون یہ ہے کہ وہ چیز حلال اور پاکیزہ ہو ، ارشاد نبوی ہے:[ كُلُّ مُسْكِرٍ خَمْرٌ، وَكُلُّ خَمْرٍ حَرَامٌ.](صحيح مسلم، الأشربة ،باب بيان ان كل مسكر خمر وان كل خمر حرام ، حديث:2003)’’ہر نشہ آور چیز شراب ہے اور ہر شراب حرام ہے۔‘‘
٭جن چیزوں کو شریعت نے حرام قرار دے دیا ہے ان سے مکمل اجتناب کرنا ضروری ہے مثلاً مردہ جانور کا گوشت کھانا ‘خنزیر‘ ذبح کے وقت بہنے والا خون ‘قبروں اور بتوں کی نذر کیا جانے والا کھانا اور جانور ‘ہر کچلی اور پنجے سے شکار کرنے والا جانور وغیرہ۔
٭کھانے اور پینے کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے تقویت ارو بھوک مٹانا ہو تو یہ باعث اجر بن جاتا ہے ۔
٭کھانے اور پینے سے پہلے بسم اللہ اور فارغ ہو کر االحمداللہ یا دیگر مسنون دعائیں پڑھنا مستحب ہے ۔
٭کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا اور بیٹھ کر کھانا افضل و بہتر ہے۔
٭کھانے میں عیب نکالنا اور باتیں بنانا غلط ہے ‘ہاں اگر طبیعت نہ مانے تو نہ کھائے۔
٭کھانا دائیں ہاتھ سے اور اپنے سامنے سے کھانا چاہیے ،کیونکہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا پیتا ہے ۔
٭اگر کھانے کے دوران میں لقمہ گر جائے تو اسے صاف کر کے کھا لینا چاہیے۔
٭کھانے کی دعوت قبول کرنی چاہیے۔
٭اگر چند افراد مل کر کھانا کھا رہے ہوں تو ان کا خیال رکھنا چاہیے۔
٭کھانے کو ٹھنڈا کر نے کے لیے پھونکیں مارنا درست نہیں۔
٭ٹیک لگا کر یا لیٹ کر کھانا درست نہیں۔
٭ملازموں اور خادموں کو ساتھ بٹھا کر کھانا کھلانا افضل ہے ‘ورنہ انہیں کھانے میں سے کچھ نہ کچھ ضرور دینا چاہیے۔
٭کھانا کھانے کے بعد انگلیاں چاپ لینا سنت ہے ، البتہ دھونا بھی درست ہے ۔
٭دعوت کرنے والے کے حق میں دعا کرنی چاہیے۔
٭جن جانوروں کا گوشت کھایا نہیں جاتا ان کا دودھ پینا بھی درست ہے۔
٭تمباکو ‘سگریٹ ‘افیون‘ اور ہیرون وغیرہ سخت حرام ہیں-
٭ایسا جوس جس میں جوش اور نشہ پیدا ہو چکا اسے پینا حرام ہے۔
٭بوقت ضرورت کھڑے ہو کر پینا درست ہے۔
٭مشروب کو تین سانسوں میں پینا سنت ہے ‘ہر بار منہ برتن سے ہٹا کر سانس لینا چاہیے
٭اگر برتن میں کوئی چیز نظر آئے تو اسے ہاتھ سے یا مشروب بہا کر نکالنا چاہیے ‘پھونک مارنا ٹھیک نہیں۔
٭کھانا یا مشروب پیش کرے وقت دائیں جانب سے شروع کرنا چاہیے۔
٭مشروب پیش کرنے والا سب کے آخر میں خود نوش کرے۔
سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس چیز کی کثیر مقدار نشہ آور ہو اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے۔“
حدیث حاشیہ:
اس حدیث مبارک میں صراحت کر دی گئی ہے۔ کہ ہر نشہ آور چیز اس کی نوعیت خواہ کچھ ہو۔ وہ مقدار میں تھوڑی ہو یا زیادہ حرام ہی ہے۔ اور یہ کہنا یا سمجھنا کہ انگور کی ہو تو حرام ہے۔ اور دوسری قسم کی ہو تو اس کا اتنی مقدار میں پینا حلال ہے۔ جس سے نشہ پیدا نہ ہو۔ فرمان رسول ﷺ کے خلاف ہے۔ اس لئے محقق اطباء اور علمائے محدثین کے نزدیک ہومیو پیتھک۔ایلو پیتھک۔ یا یونانی ادویہ جن میں الکحل۔ افیون۔ شراب یا کوئی بھی اسی چیز جسے اللہ تعالیٰ نے حرام کردیا ہو۔ اس سے علاج کرنا حرام ہے۔ اور جمہورعلماء کا یہی مذہب ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں تعلیقاً اور معجم کبیر میں مرفوعاً حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا! إن الله لم يجعل شفاءَكُم فيما حَرَّمَ عليكُم(صحیح البخاري، الأشربة، قبل حدیث: 5614 والمعجم الکبیر للطبراني: 345/9) نیز ان جیسی دیگر روایات اور نصوص سے صراحت کے ساتھ معلوم ہوتا ہے۔ کہ پلید اور حرام چیزوں کے ساتھ علاج ممنوع ہے۔ بعض علماء نے حرام اور پلید چیزوں سے علاج کو جائز قرار دیا ہے۔ تو انہوں نے اسے مضطر کےلئے مردار اور خون کے استعمال کے جواز پر قیاس کیا ہے۔ لیکن نص کے خلاف ہونے کی وجہ سے یہ قیاس کمزور ہے۔ لہذا یہ قیاس مع الفارق ہے۔ کیونکہ مردار اور خون کھانے سے ضرورت زائل ہوجاتی ہے۔ اور اس سے جان کی حفاظت ہوجاتی ہے۔ جبکہ حرام اور پلید چیز کے استعمال سے شفا یقینی نہیں۔ اور ضروری نہیں کہ مرض کا ازالہ ہوجائے۔ بلکہ رسول اللہ ﷺنے تو یہ خبردی ہے کہ یہ دوا نہیں۔ لہذا اس سے علاج بھی صحیح نہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
جابر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس چیز کی زیادہ مقدار نشہ آور ہو اس کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے۔“
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir ibn Abdullah: The Prophet (ﷺ) said: If a large amount of anything causes intoxication, a small amount of it is prohibited.