Abu-Daud:
Types of Blood-Wit (Kitab Al-Diyat)
(Chapter: Not Retaliating On The Basis Of Qasamah)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4526.
جناب ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن اور سلیمان بن یسار، انصار کے کئی لوگوں سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے یہودیوں سے کہا اور ان ہی سے ابتداء کی ”تم میں سے پچاس آدمی قسمیں کھائیں۔“ مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ تو آپ ﷺ نے انصاریوں سے کہا کہ اپنا حق (قسمیں کھا کر) ثابت کرو۔ تو انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم ان دیکھی بات پر کیسے قسمیں کھائیں؟ تو رسول اللہ ﷺ نے اس کی دیت یہودیوں پر ڈال دی کیونکہ وہ مقتول ان ہی کے ہاں پایا گیا تھا۔
تشریح:
یہ روایت ضعیف ہے، اس مقتول کی دیت رسول ؐنے بیت المال سے ادا فرمائی تھی۔ جیسےکہ گزشتہ احادیث میں بیان ہوا ہے۔
٭دیت کی لغوی اوراصطلاحی تعریف"الدية"ودٰی فعل کا مصدرہے جس کےمعنی ہیں "خون کی بہا اداکرنا"عرب کہتےہیں :وديت القتل: أي اعطيت ديته"میں نے مقتول مقتول کی دیت اداکی"دیت کو "عقل"بھی کہا جاتاہے"عقل"کےمعنی "باندھنے"کےہیں۔عرب کارواج تھاکہ وہ مقتول کی دیت کےاونٹ اس کےگھر کےصحن میں باندھ دیتےتھے۔ اس لیےدیت کو عقل کہا جانے لگا۔
٭اصطلاحی تعریف یوں کی گئی ہے: (الدية مال يجب بقتل آدمى حرمين دمه أو بجرحه مقدر شرعاً لا باجتهاد)"دیت سےمرادوہ مال ہے جس کی ادائیگی کسی آزادشخص کو قتل کرنے یازخمی کرنے کی صورت میں واجب ہےاور اس کی مقدار شریعت میں مقررہے ،یہ اجتہادی مسئلہ نہیں ہے ۔
٭دیت کی مشروعیت: اللہ تعالی نے مسلمان کے جان ومال کو دوسروں پر محترم قراردیاہے۔ لہذاان دو میں سے کسی ظلم وزیادتی کی صورت میں ہرجانہ اورخون بہا کی صورت میں سزامقررکردی گئی ہے ،ارشاد بانی ہے (وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ)
"اور جس نے مسلمان شخص کو غلطی سے قتل کردیا تو مومن غلام آزادکرے اوراولیاء(مقتول کے ورثا) کودیت ادا کرے ۔ "
رسول اکر م ﷺنے دیت کی مشروعیت بیان کرتے ہوئے فرمایا:[ فَمَنْ قُتِلَ فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ: إِمَّا أَنْ يُعْقَلَ، وَإِمَّا أَنْ يُقَادَ أَهْلُ القَتِيلِ](صحيح البخارى ،الديات،باب من قتل له قتيل فهو بخير النظرين،حديث:6880)
"جس کا کوئی شخص قتل کردیا جائے اسے دوچیزوں کا اختیار ہے ،اسے دیت دی جائے یاقصاص دلایا جائے ۔ "
٭دیت کی ادائیگی : دیت کی ادائیگی کی دو صورتیں ہیں
1 : اگر قاتل نے عمداقتل کیا ہے اور مقتول کے ورثاقصاص کی بجائے دیت لینے پرراضی ہو گئے ہیں تو دیت قاتل خوداداکرے گا ۔
2 :اگر قتل غلطی سے ہوا تھا یا شبہ عمدکی شکل میں تھا تو دیت قاتل کے رشتہ داروں پر ہوں گی ۔
دیت کی مقداراور تعیین : اللہ تعالی نے انسانی جان کے بلاوجہ تلف کرنے پر سخت سزائیں مقررکی ہیں۔ایک انسانی جان کی قدروقیمت اللہ تعالی کے نزدیک کتنی بلندہے اس کا اندازہ اس ارشادبانی سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔( مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا) (المائدۃ:32)
"جو شخص کسی کو بغیر اس کے وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فسادمچانے والا ہو، قتل کرڈالے تو گویا ااس نے تمام لوگوں کوقتل کرڈالا اور جو شخص کسی کی جان بچائے تو اس گویا تمام لوگوں کو زندہ کردیا ۔ "لہذاکسی محترم کو ختم کرنے کی سزا نہایت سخت رکھی گئی ہے لیکن غلطی سے بھی کسی کی جان ضائع کردی جائے یا اس کو زخمی کردیا جائے تو اس پر سزائیں مقرر کردی گئی ہیں مثلا :
1 : اگر مقتول مسلمان آزاد مردتھاتو اس کی دیت سواونٹ ہیں اگر اونٹ میسر نہ ہوں تو ایک ہزارمثقال سونا یا بارہ ہزاردرہم چاندی یا دوگائیں ،یا دوہزاربھیڑبکریاں ادا کی جائیں گی ۔ البتہ غلام شخص کی دیت اس کی قیمت کے برابر ہو گی ۔
2 : بعض انسانی اعضا ایسے ہیں کہ جن کے تلف ہونے کی صورت میں مکمل دیت ادا کرنا پڑتی ہے مثلا عقل کا زائل ہونا ،دونوں کان ،دونوں آنکھیں ،زبان ،ناک،خصیتین کٹنے سے قوت جماع ختم ہو جائے ،ریڑھ کی ہڈی ۔ ان میں کسی ایک کے بے کار ہو جانے پر مکمل شخص کی دیت لاگو ہو گی ۔
3 :مذکورہ بالا اعضا میں سے جو جوڑے ہیں مثلا : دو ہاتھ ،دوکان وغیرہ ان میں سے ایک تلف تو نصف دیت واجب ہو گی ۔
4 :اس کے علاوہ مختلف زخموں کی نوعیت کے لحاظ سے دیت کی مقدارمختلف ہے ۔
جناب ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن اور سلیمان بن یسار، انصار کے کئی لوگوں سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے یہودیوں سے کہا اور ان ہی سے ابتداء کی ”تم میں سے پچاس آدمی قسمیں کھائیں۔“ مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ تو آپ ﷺ نے انصاریوں سے کہا کہ اپنا حق (قسمیں کھا کر) ثابت کرو۔ تو انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم ان دیکھی بات پر کیسے قسمیں کھائیں؟ تو رسول اللہ ﷺ نے اس کی دیت یہودیوں پر ڈال دی کیونکہ وہ مقتول ان ہی کے ہاں پایا گیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
یہ روایت ضعیف ہے، اس مقتول کی دیت رسول ؐنے بیت المال سے ادا فرمائی تھی۔ جیسےکہ گزشتہ احادیث میں بیان ہوا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انصار کے کچھ لوگوں سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے پہلے یہود سے کہا: ”تم میں سے پچاس لوگ قسم کھائیں۔“ تو انہوں نے انکار کیا، پھر رسول اللہ ﷺ نے انصار سے کہا: ”تم اپنا حق ثابت کرو۔“ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم ایسی بات پر قسم کھائیں جسے ہم نے دیکھا نہیں ہے؟ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ان کی دیت یہود سے دلوائی اس لیے کہ وہ انہیں کے درمیان پایا گیا تھا۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Some men: The Prophet (ﷺ) said to the Jews and started with them: Fifty of you should take the oaths. But they refused (to take the oaths). He then said to the Ansar: Prove your claim. They said: Do we take the oaths without seeing, Apostle of Allah (ﷺ)? The Apostle of Allah (ﷺ) then imposed the blood-wit on the Jews because he (the slain) was found among them.