باب: کیا مسلمان کو کافر کے بدلے میں قتل کیا جائے گا؟
)
Abu-Daud:
Types of Blood-Wit (Kitab Al-Diyat)
(Chapter: Should A Muslim Be Killed In Retaliation For A Disbeliever ?)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4531.
جناب عمرو بن شعیب اپنے والد سے، وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اور مذکورہ بالا روایت علی کی مانند ذکر دیا۔ اس میں اضافہ ہے: ”ان کا (مسلمانوں کا) بعید ترین فرد بھی امان دے سکتا ہے۔ اور ان کا تنومند اور قوی رفتار اپنے ضعیف اور سست رفتار کو بھی ساتھ ملائے (مال غنیمت میں اس کو شریک کرے) اور چھوٹے دستے میں جانے والا بڑے لشکر میں رہ جانے والوں کو بھی شریک سمجھے۔“
تشریح:
آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ جہاد میں شریک ہونے والے تمام مجاہد مال غنیمت میں حصے دار ہوں گے، حتی کہ اگر ایک چھوٹا دستہ، بڑے لشکر سے الگ ہو کر کوئی جہاد معرکہ سر کرے اور وہاں سے مال غنیمت حاصل کرے تو اس میں بڑے لشکر والے بھی جو اپنے امیر کے ساتھ بیٹھے رہے، شریک ہوں گے۔
٭دیت کی لغوی اوراصطلاحی تعریف"الدية"ودٰی فعل کا مصدرہے جس کےمعنی ہیں "خون کی بہا اداکرنا"عرب کہتےہیں :وديت القتل: أي اعطيت ديته"میں نے مقتول مقتول کی دیت اداکی"دیت کو "عقل"بھی کہا جاتاہے"عقل"کےمعنی "باندھنے"کےہیں۔عرب کارواج تھاکہ وہ مقتول کی دیت کےاونٹ اس کےگھر کےصحن میں باندھ دیتےتھے۔ اس لیےدیت کو عقل کہا جانے لگا۔
٭اصطلاحی تعریف یوں کی گئی ہے: (الدية مال يجب بقتل آدمى حرمين دمه أو بجرحه مقدر شرعاً لا باجتهاد)"دیت سےمرادوہ مال ہے جس کی ادائیگی کسی آزادشخص کو قتل کرنے یازخمی کرنے کی صورت میں واجب ہےاور اس کی مقدار شریعت میں مقررہے ،یہ اجتہادی مسئلہ نہیں ہے ۔
٭دیت کی مشروعیت: اللہ تعالی نے مسلمان کے جان ومال کو دوسروں پر محترم قراردیاہے۔ لہذاان دو میں سے کسی ظلم وزیادتی کی صورت میں ہرجانہ اورخون بہا کی صورت میں سزامقررکردی گئی ہے ،ارشاد بانی ہے (وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ)
"اور جس نے مسلمان شخص کو غلطی سے قتل کردیا تو مومن غلام آزادکرے اوراولیاء(مقتول کے ورثا) کودیت ادا کرے ۔ "
رسول اکر م ﷺنے دیت کی مشروعیت بیان کرتے ہوئے فرمایا:[ فَمَنْ قُتِلَ فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ: إِمَّا أَنْ يُعْقَلَ، وَإِمَّا أَنْ يُقَادَ أَهْلُ القَتِيلِ](صحيح البخارى ،الديات،باب من قتل له قتيل فهو بخير النظرين،حديث:6880)
"جس کا کوئی شخص قتل کردیا جائے اسے دوچیزوں کا اختیار ہے ،اسے دیت دی جائے یاقصاص دلایا جائے ۔ "
٭دیت کی ادائیگی : دیت کی ادائیگی کی دو صورتیں ہیں
1 : اگر قاتل نے عمداقتل کیا ہے اور مقتول کے ورثاقصاص کی بجائے دیت لینے پرراضی ہو گئے ہیں تو دیت قاتل خوداداکرے گا ۔
2 :اگر قتل غلطی سے ہوا تھا یا شبہ عمدکی شکل میں تھا تو دیت قاتل کے رشتہ داروں پر ہوں گی ۔
دیت کی مقداراور تعیین : اللہ تعالی نے انسانی جان کے بلاوجہ تلف کرنے پر سخت سزائیں مقررکی ہیں۔ایک انسانی جان کی قدروقیمت اللہ تعالی کے نزدیک کتنی بلندہے اس کا اندازہ اس ارشادبانی سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔( مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا) (المائدۃ:32)
"جو شخص کسی کو بغیر اس کے وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فسادمچانے والا ہو، قتل کرڈالے تو گویا ااس نے تمام لوگوں کوقتل کرڈالا اور جو شخص کسی کی جان بچائے تو اس گویا تمام لوگوں کو زندہ کردیا ۔ "لہذاکسی محترم کو ختم کرنے کی سزا نہایت سخت رکھی گئی ہے لیکن غلطی سے بھی کسی کی جان ضائع کردی جائے یا اس کو زخمی کردیا جائے تو اس پر سزائیں مقرر کردی گئی ہیں مثلا :
1 : اگر مقتول مسلمان آزاد مردتھاتو اس کی دیت سواونٹ ہیں اگر اونٹ میسر نہ ہوں تو ایک ہزارمثقال سونا یا بارہ ہزاردرہم چاندی یا دوگائیں ،یا دوہزاربھیڑبکریاں ادا کی جائیں گی ۔ البتہ غلام شخص کی دیت اس کی قیمت کے برابر ہو گی ۔
2 : بعض انسانی اعضا ایسے ہیں کہ جن کے تلف ہونے کی صورت میں مکمل دیت ادا کرنا پڑتی ہے مثلا عقل کا زائل ہونا ،دونوں کان ،دونوں آنکھیں ،زبان ،ناک،خصیتین کٹنے سے قوت جماع ختم ہو جائے ،ریڑھ کی ہڈی ۔ ان میں کسی ایک کے بے کار ہو جانے پر مکمل شخص کی دیت لاگو ہو گی ۔
3 :مذکورہ بالا اعضا میں سے جو جوڑے ہیں مثلا : دو ہاتھ ،دوکان وغیرہ ان میں سے ایک تلف تو نصف دیت واجب ہو گی ۔
4 :اس کے علاوہ مختلف زخموں کی نوعیت کے لحاظ سے دیت کی مقدارمختلف ہے ۔
جناب عمرو بن شعیب اپنے والد سے، وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اور مذکورہ بالا روایت علی کی مانند ذکر دیا۔ اس میں اضافہ ہے: ”ان کا (مسلمانوں کا) بعید ترین فرد بھی امان دے سکتا ہے۔ اور ان کا تنومند اور قوی رفتار اپنے ضعیف اور سست رفتار کو بھی ساتھ ملائے (مال غنیمت میں اس کو شریک کرے) اور چھوٹے دستے میں جانے والا بڑے لشکر میں رہ جانے والوں کو بھی شریک سمجھے۔“
حدیث حاشیہ:
آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ جہاد میں شریک ہونے والے تمام مجاہد مال غنیمت میں حصے دار ہوں گے، حتی کہ اگر ایک چھوٹا دستہ، بڑے لشکر سے الگ ہو کر کوئی جہاد معرکہ سر کرے اور وہاں سے مال غنیمت حاصل کرے تو اس میں بڑے لشکر والے بھی جو اپنے امیر کے ساتھ بیٹھے رہے، شریک ہوں گے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: … پھر راوی نے علی ؓ کی حدیث کی طرح ذکر کیا، البتہ اس میں اتنا اضافہ ہے کہ ان کا ادنی شخص بھی امان دے سکتا ہے اور مال غنیمت میں عمدہ جانور اور کمزور جانور والے دونوں برابر ہیں، جو لشکر سے باہر نکلے اور لڑے اور وہ جو لشکر میں بیٹھا رے دونوں برابر ہیں۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah ibn 'Amrr ibn al-'As: The Apostle of Allah (ﷺ) said, mentioning the tradition similar to the one transmitted by Ali. This version adds: The most distant of them gives protection as from all, those who are strong among them send back (spoil) to those who are weak among them, and their expeditions sending it back to those who are at home.