Abu-Daud:
General Behavior (Kitab Al-Adab)
(Chapter: Regarding sitting in the streets)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4818.
سیدنا انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت نبی کریم ﷺ کے پاس آئی اور کہنے لگی: اے اللہ کے رسول! مجھے آپ سے ایک کام ہے۔ آپ ﷺ نے اس سے فرمایا: ”اے فلاں! کسی گلی کے کونے پر بیٹھ جاؤ میں تیرے ساتھ بیٹھ سکتا ہوں (تیری بات سن سکتا ہوں)۔“ چنانچہ وہ بیٹھ گئی اور نبی کریم ﷺ بھی اس کے ساتھ بیٹھ گئے حتیٰ کہ اس نے اپنا مقصد پا لیا۔ ابن عیسیٰ نے «حتى قضت حاجتها» کا لفظ ذکر نہیں کیا۔ اور کثیر (کثیر بن عبید) نے اپنی سند میں (عنعنہ سے روایت کرتے ہوئے) «عن حميد عن أنس» کہا۔
٭ : ادب کے لغوی اور اصطلاحی معنی : لغت میں "ادب " سے مرادہیں اخلاق،اچھا طریقہ ،شائستگی سلیقہ شعاری اور تہذیب ۔ اصطلاح میں ادب کی تعریف یوں کی گئی ہے :قابل ستائش قول وفعل کو اپناناادب ہے ۔
اسلامی تعلیمات کے روشن ابواب پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تویہ حقیقت پوری طرح عیاں ہوجاتی ہے اس کا نظام اوب وتربیت نہایت شاندارہے۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب یا تہذیب اس کا مقابلہ کرنے سے قاصرہے ۔ اسلام نے اپنےپیروکاروں کو زندگی کے ہر شعبے میں سلیقہ شعاری اور مہذب اندازاپنانے کے لئے خوبصورت آداب کی تعلیم دی ہے ۔ ان آداب کو اپنی زندگی کا جزولاینفک بنا کر ہی مسلمان دنیا وآخرت میں سرخروہو سکتے ہیں ۔ کیو نکہ دنیا وآخرت کی کامیابی وکامرانی دین سے وابستگی کے ساتھ ممکن ہے اوردین حنیف سراپا ادب ہے ۔
٭:حافظ قیم ؒ فرماتے ہیں :"دین (محمدی )سراپا ادب ہے ۔
٭ :اسلامی آداب کی اہمیت کے پیش نظر امام عبداللہ بن مبارک ؒ فرماتے ہیں "ہمیں بہت زیادہ علم کی بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے "
٭ :اللہ تعالی نے مومنوں کو آگ سے بچنے اور اپنی اولاد کو بچانے کا حکم دیا ہے ،ارشاد باری تعالی ہے :"اے ایمان والو!اپنی جانوں اور گھر والوں کو آگ سے بچاو۔ "
٭:حضرت علی رضی اللہ اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں "اپنے گھروالوں کواسلامی آداب سکھاو اور اسلامی تعلیمات دو ۔
٭ :ادب کی اہمیت واضح کرتے ہوئے جناب یوسف بن حسین ؒ فرماتے ہیں "ادب ہی کے ساتھ علم کی فہم وفراست ملتی ہے اور علم ہی کے ساتھ اعمال درست ہوتے ہیں اور حکمت کا حصول اعمال پر منحصرہے جبکہ زہدوتقوی کی بنیاد بھی حکمت ہی پر ہے ،دنیا سے بے رغبتی زیدوتقوی ہی سے حاصل ہوتی ہے اوردنیا سے بے رغبتی آخرت میں دلچسپی کی چابی ہے اور آخرت کی سعادت کےذوق وشوق ہی سے اللہ تعالی کے ہاں رتبے ملتے ہیں ۔
الغرض آداب مسلمان کی زندگی کا لازمی جز ہیں اور یہ اس کی زندگی کی تمام سرگرمیوں پر حاوی ہیں ، مثلا :آداب الہی ،آداب رسول ﷺ،آداب قرآن حکیم ،آداب حقوق العباد ،آداب سفر وحضر،آداب تجارت ،آداب تعلیم وتعلم ،آداب طعام وشراب ،آداب مجلس ومحفل ،آداب لباس،آداب نیند ،آداب مہمان نوازی ،آداب والدین واستاتذہ ،آداب سیاست وحکمرانی وغیرہ ۔ ان آداب زندگی کو اپنانادنیا وآخرت کی سعادت کا باعث ہے جبکہ ان آداب سے تہی دامنی درحقیقت اصل محرومی اور بد نصیبی ہے ۔ اللہ تعالی ہمیں اسلامی آداب اپنانے کی توفیق فرمائے ،آمین
سیدنا انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت نبی کریم ﷺ کے پاس آئی اور کہنے لگی: اے اللہ کے رسول! مجھے آپ سے ایک کام ہے۔ آپ ﷺ نے اس سے فرمایا: ”اے فلاں! کسی گلی کے کونے پر بیٹھ جاؤ میں تیرے ساتھ بیٹھ سکتا ہوں (تیری بات سن سکتا ہوں)۔“ چنانچہ وہ بیٹھ گئی اور نبی کریم ﷺ بھی اس کے ساتھ بیٹھ گئے حتیٰ کہ اس نے اپنا مقصد پا لیا۔ ابن عیسیٰ نے «حتى قضت حاجتها» کا لفظ ذکر نہیں کیا۔ اور کثیر (کثیر بن عبید) نے اپنی سند میں (عنعنہ سے روایت کرتے ہوئے) «عن حميد عن أنس» کہا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس ؓ کہتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی، اور بولی: اللہ کے رسول! مجھے آپ سے ایک ضرورت ہے، آپ نے اس سے فرمایا: ”اے فلاں کی ماں! جہاں چاہو گلی کے کسی کونے میں بیٹھ جاؤ، یہاں تک کہ میں تمہارے پاس آ کر ملوں۔“ چنانچہ وہ بیٹھ گئی، پھر نبی اکرم ﷺ اس سے آ کر ملے، یہاں تک کہ اس نے آپ سے اپنی ضرورت کی بات کی۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas ibn Malik: A woman came to the Apostle of Allah (ﷺ) and said: Apostle of Allah (ﷺ) : I have some need with you. He said to her: Mother of so and so, sit in the corner of any street you wish and I shall sit with you. So she sat and the Apostle of Allah (ﷺ) also sat with her till she fulfilled her need.