Abu-Daud:
General Behavior (Kitab Al-Adab)
(Chapter: Regarding sitting in the streets)
مترجم: ١. فضيلة الشيخ أبو عمار عمر فاروق السعيدي (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
4819.
سیدنا انس ؓ نے بیان کیا کہ اس عورت کی عقل میں کوئی کمی تھی۔ اور مذکورہ بالا کے ہم معنی بیان کیا۔
تشریح:
1) کسی ضرورت کی بنا پر کہیں سرِراہ بیٹھنا پڑ جائے تو کو ئی معیوب نہیں۔ اس حدیث کا یہ مفہوم بھی لیا گیا ہے کہ آپ ﷺ نے سرِ راہ بیٹھنے کی بجائے کسی ایک طرف الگ ہو کر بیٹھنے کا کہا تھا۔ 2) سادہ لوح اور بے عقل قسم لوگوں کی دلداری کرنا بھی شرعی اور اخلاقی فریضہ ہے۔ اس طرح یہ لوگ کافی حد تک خوش اور پرسکون ہو جا تے ہیں۔ ورنہ پریشان ہونے کی وجہ سے کئی طرح کی حرکتیں کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے استہزاہ کرنا اور اُنھیں مسخرہ بنانا قطعاَ روا نہیں۔ ایسا عمل اُن پر بہت بڑا ظلم ہے اور ایسا کرنے والے بہت بڑے ظالم ہوتے ہیں۔ اسلام اس کی قطعاََ اجازت نہیں دیتا۔ 3) قضاء الحاجة ايک عام تركيب اور جملہ ہے، جیسے اس روایت میں آیا ہے اور اس کے معنی بھی واضح ہیں کہ وہ جو بات کرنا چاہتی تھی وہ اس نے کر لی۔
٭ : ادب کے لغوی اور اصطلاحی معنی : لغت میں "ادب " سے مرادہیں اخلاق،اچھا طریقہ ،شائستگی سلیقہ شعاری اور تہذیب ۔ اصطلاح میں ادب کی تعریف یوں کی گئی ہے :قابل ستائش قول وفعل کو اپناناادب ہے ۔
اسلامی تعلیمات کے روشن ابواب پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تویہ حقیقت پوری طرح عیاں ہوجاتی ہے اس کا نظام اوب وتربیت نہایت شاندارہے۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب یا تہذیب اس کا مقابلہ کرنے سے قاصرہے ۔ اسلام نے اپنےپیروکاروں کو زندگی کے ہر شعبے میں سلیقہ شعاری اور مہذب اندازاپنانے کے لئے خوبصورت آداب کی تعلیم دی ہے ۔ ان آداب کو اپنی زندگی کا جزولاینفک بنا کر ہی مسلمان دنیا وآخرت میں سرخروہو سکتے ہیں ۔ کیو نکہ دنیا وآخرت کی کامیابی وکامرانی دین سے وابستگی کے ساتھ ممکن ہے اوردین حنیف سراپا ادب ہے ۔
٭:حافظ قیم ؒ فرماتے ہیں :"دین (محمدی )سراپا ادب ہے ۔
٭ :اسلامی آداب کی اہمیت کے پیش نظر امام عبداللہ بن مبارک ؒ فرماتے ہیں "ہمیں بہت زیادہ علم کی بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے "
٭ :اللہ تعالی نے مومنوں کو آگ سے بچنے اور اپنی اولاد کو بچانے کا حکم دیا ہے ،ارشاد باری تعالی ہے :"اے ایمان والو!اپنی جانوں اور گھر والوں کو آگ سے بچاو۔ "
٭:حضرت علی رضی اللہ اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں "اپنے گھروالوں کواسلامی آداب سکھاو اور اسلامی تعلیمات دو ۔
٭ :ادب کی اہمیت واضح کرتے ہوئے جناب یوسف بن حسین ؒ فرماتے ہیں "ادب ہی کے ساتھ علم کی فہم وفراست ملتی ہے اور علم ہی کے ساتھ اعمال درست ہوتے ہیں اور حکمت کا حصول اعمال پر منحصرہے جبکہ زہدوتقوی کی بنیاد بھی حکمت ہی پر ہے ،دنیا سے بے رغبتی زیدوتقوی ہی سے حاصل ہوتی ہے اوردنیا سے بے رغبتی آخرت میں دلچسپی کی چابی ہے اور آخرت کی سعادت کےذوق وشوق ہی سے اللہ تعالی کے ہاں رتبے ملتے ہیں ۔
الغرض آداب مسلمان کی زندگی کا لازمی جز ہیں اور یہ اس کی زندگی کی تمام سرگرمیوں پر حاوی ہیں ، مثلا :آداب الہی ،آداب رسول ﷺ،آداب قرآن حکیم ،آداب حقوق العباد ،آداب سفر وحضر،آداب تجارت ،آداب تعلیم وتعلم ،آداب طعام وشراب ،آداب مجلس ومحفل ،آداب لباس،آداب نیند ،آداب مہمان نوازی ،آداب والدین واستاتذہ ،آداب سیاست وحکمرانی وغیرہ ۔ ان آداب زندگی کو اپنانادنیا وآخرت کی سعادت کا باعث ہے جبکہ ان آداب سے تہی دامنی درحقیقت اصل محرومی اور بد نصیبی ہے ۔ اللہ تعالی ہمیں اسلامی آداب اپنانے کی توفیق فرمائے ،آمین
سیدنا انس ؓ نے بیان کیا کہ اس عورت کی عقل میں کوئی کمی تھی۔ اور مذکورہ بالا کے ہم معنی بیان کیا۔
حدیث حاشیہ:
1) کسی ضرورت کی بنا پر کہیں سرِراہ بیٹھنا پڑ جائے تو کو ئی معیوب نہیں۔ اس حدیث کا یہ مفہوم بھی لیا گیا ہے کہ آپ ﷺ نے سرِ راہ بیٹھنے کی بجائے کسی ایک طرف الگ ہو کر بیٹھنے کا کہا تھا۔ 2) سادہ لوح اور بے عقل قسم لوگوں کی دلداری کرنا بھی شرعی اور اخلاقی فریضہ ہے۔ اس طرح یہ لوگ کافی حد تک خوش اور پرسکون ہو جا تے ہیں۔ ورنہ پریشان ہونے کی وجہ سے کئی طرح کی حرکتیں کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے استہزاہ کرنا اور اُنھیں مسخرہ بنانا قطعاَ روا نہیں۔ ایسا عمل اُن پر بہت بڑا ظلم ہے اور ایسا کرنے والے بہت بڑے ظالم ہوتے ہیں۔ اسلام اس کی قطعاََ اجازت نہیں دیتا۔ 3) قضاء الحاجة ايک عام تركيب اور جملہ ہے، جیسے اس روایت میں آیا ہے اور اس کے معنی بھی واضح ہیں کہ وہ جو بات کرنا چاہتی تھی وہ اس نے کر لی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت تھی جس کی عقل میں کچھ فتور تھا پھر انہوں نے اسی مفہوم کی حدیث بیان کی۔
حدیث حاشیہ:
0
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas ibn Malik: A woman came to the Apostle of Allah (ﷺ) and said: Apostle of Allah (ﷺ) : I have some need with you. He said to her: Mother of so and so, sit in the corner of any street you wish and I shall sit with you. So she sat and the Apostle of Allah (ﷺ) also sat with her till she fulfilled her need.