تشریح:
فوائد ومسائل:
1۔ عوف بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے حمیری رفیقِ سفر کی حمایت کی۔ حضرت خالد رضی اللہ تعالی عنہ سے یہ بھی کہا کہ اگر انھوں نے ان کے ہاتھ سے لیا ہوا سامان واپس نہ کیا تووہ اس کی شکایت رسول اللہ ﷺ کے پاس کریں گے۔ انھوں نے آ کر شکایت کی۔ آپﷺ نے اس شکایت کا ازالہ فرما دیا۔ بعد میں حضرت عوف نے خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ طعن کیا تورسول اللہ ﷺ نے حضرت خالد رضی اللہ تعالی عنہ کو احساس اہانت سے بچانے کے لیے شکایت کرنےوالوں پر غصے کا اظہار فرمایا۔ آپ ﷺ کا فرمان: ’’خالد! اسے مت دو‘‘ ما ایک مفہوم یہ ہے کہ جس نے طعن کیا اسے نہ دو۔ مقصود زجرو توبیخ تھی، ورنہ وہ سامان حضرت عوف رضی اللہ تعالی عنہ کو مل بھی نہیں رہا تھا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حمیری شخص بھی طعن میں شریک ہو، اس لیے بطور سزا اس کو سامان واپس نہ کرنے کا حکم دیا ہو۔ حضرت خالد رضی اللہ تعالی عنہنے سامان کا کچھ حصہ واپس لیا تھا، سارا نہیں۔
2۔ رسول اللہ ﷺ کے مقرر کردہ امیر مہمات کی پریشانیوں، زحمتوں اور تکلیفوں کا بڑا حصہ خود سہتے اور اپنے ساتھیوں کو ان زحمتوں سے دور رکھنے کی کوشش کرتے۔ ان کی ذمہ داری صرف یہ نہ تھی کہ دشمن کا مقابلہ کریں، یہ بھی تھی کہ اپنی افواج کا زیادہ سے زیادہ تحفظ کریں اور آرام پہنچائیں۔ ان کے حقوق دوسروں کے برابر، سہولتیں دوسروں سے کم اور فرائض بہت زیادہ تھے۔ ان کے کسی کام کی اصلاح کا دروازہ تو کھلا تھا لیکن طعن و شنیع کی وہ ضرورت تھی نہ اجازت۔