قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ (بَابُ فَتْحِ مَكَّةَ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

1780. حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ رَبَاحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: وَفَدَتْ وُفُودٌ إِلَى مُعَاوِيَةَ وَذَلِكَ فِي رَمَضَانَ، فَكَانَ يَصْنَعُ بَعْضُنَا لِبَعْضٍ الطَّعَامَ، فَكَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ مِمَّا يُكْثِرُ أَنْ يَدْعُوَنَا إِلَى رَحْلِهِ، فَقُلْتُ: أَلَا أَصْنَعُ طَعَامًا فَأَدْعُوَهُمْ إِلَى رَحْلِي؟ فَأَمَرْتُ بِطَعَامٍ يُصْنَعُ، ثُمَّ لَقِيتُ أَبَا هُرَيْرَةَ مِنَ الْعَشِيِّ، فَقُلْتُ: الدَّعْوَةُ عِنْدِي اللَّيْلَةَ، فَقَالَ: سَبَقْتَنِي، قُلْتُ: نَعَمْ، فَدَعَوْتُهُمْ، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: أَلَا أُعْلِمُكُمْ بِحَدِيثٍ مِنْ حَدِيثِكُمْ يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، ثُمَّ ذَكَرَ فَتْحَ مَكَّةَ، فَقَالَ: أَقْبَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ، فَبَعَثَ الزُّبَيْرَ عَلَى إِحْدَى الْمُجَنِّبَتَيْنِ، وَبَعَثَ خَالِدًا عَلَى الْمُجَنِّبَةِ الْأُخْرَى، وَبَعَثَ أَبَا عُبَيْدَةَ عَلَى الْحُسَّرِ، فَأَخَذُوا بَطْنَ الْوَادِي، وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي كَتِيبَةٍ، قَالَ: فَنَظَرَ فَرَآنِي، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ، فَقَالَ: «لَا يَأْتِينِي إِلَّا أَنْصَارِيٌّ» - زَادَ غَيْرُ شَيْبَانَ -، فَقَالَ: «اهْتِفْ لِي بِالْأَنْصَارِ»، قَالَ: فَأَطَافُوا بِهِ، وَوَبَّشَتْ قُرَيْشٌ أَوْبَاشًا لَهَا، وَأَتْبَاعًا، فَقَالُوا: نُقَدِّمُ هَؤُلَاءِ، فَإِنْ كَانَ لَهُمْ شَيْءٌ كُنَّا مَعَهُمْ، وَإِنْ أُصِيبُوا أَعْطَيْنَا الَّذِي سُئِلْنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَرَوْنَ إِلَى أَوْبَاشِ قُرَيْشٍ، وَأَتْبَاعِهِمْ»، ثُمَّ قَالَ بِيَدَيْهِ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى، ثُمَّ قَالَ: «حَتَّى تُوَافُونِي بِالصَّفَا»، قَالَ: فَانْطَلَقْنَا فَمَا شَاءَ أَحَدٌ مِنَّا أَنْ يَقْتُلَ أَحَدًا إِلَّا قَتَلَهُ، وَمَا أَحَدٌ مِنْهُمْ يُوَجِّهُ إِلَيْنَا شَيْئًا، قَالَ: فَجَاءَ أَبُو سُفْيَانَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، أُبِيحَتْ خَضْرَاءُ قُرَيْشٍ، لَا قُرَيْشَ بَعْدَ الْيَوْمِ، ثُمَّ قَالَ: «مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِي سُفْيَانَ فَهُوَ آمِنٌ»، فَقَالَتِ الْأَنْصَارُ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: أَمَّا الرَّجُلُ فَأَدْرَكَتْهُ رَغْبَةٌ فِي قَرْيَتِهِ، وَرَأْفَةٌ بِعَشِيرَتِهِ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: وَجَاءَ الْوَحْيُ وَكَانَ إِذَا جَاءَ الْوَحْيُ لَا يَخْفَى عَلَيْنَا، فَإِذَا جَاءَ فَلَيْسَ أَحَدٌ يَرْفَعُ طَرْفَهُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يَنْقَضِيَ الْوَحْيُ، فَلَمَّا انْقَضَى الْوَحْيُ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ» قَالُوا: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: " قُلْتُمْ: أَمَّا الرَّجُلُ فَأَدْرَكَتْهُ رَغْبَةٌ فِي قَرْيَتِهِ؟ " قَالُوا: قَدْ كَانَ ذَاكَ، قَالَ: «كَلَّا، إِنِّي عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُهُ، هَاجَرْتُ إِلَى اللهِ وَإِلَيْكُمْ، وَالْمَحْيَا مَحْيَاكُمْ وَالْمَمَاتُ مَمَاتُكُمْ»، فَأَقْبَلُوا إِلَيْهِ يَبْكُونَ وَيَقُولُونَ: وَاللهِ، مَا قُلْنَا الَّذِي قُلْنَا إِلَّا الضِّنَّ بِاللهِ وَبِرَسُولِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللهَ وَرَسُولَهُ يُصَدِّقَانِكُمْ، وَيَعْذِرَانِكُمْ»، قَالَ: فَأَقْبَلَ النَّاسُ إِلَى دَارِ أَبِي سُفْيَانَ، وَأَغْلَقَ النَّاسُ أَبْوَابَهُمْ، قَالَ: وَأَقْبَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَقْبَلَ إِلَى الْحَجَرِ، فَاسْتَلَمَهُ ثُمَّ طَافَ بِالْبَيْتِ، قَالَ: فَأَتَى عَلَى صَنَمٍ إِلَى جَنْبِ الْبَيْتِ كَانُوا يَعْبُدُونَهُ، قَالَ: وَفِي يَدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَوْسٌ وَهُوَ آخِذٌ بِسِيَةِ الْقَوْسِ، فَلَمَّا أَتَى عَلَى الصَّنَمِ جَعَلَ يَطْعُنُهُ فِي عَيْنِهِ، وَيَقُولُ: {جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ} [الإسراء: 81]، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ طَوَافِهِ أَتَى الصَّفَا، فَعَلَا عَلَيْهِ حَتَّى نَظَرَ إِلَى الْبَيْتِ، وَرَفَعَ يَدَيْهِ فَجَعَلَ يَحْمَدُ اللهَ وَيَدْعُو بِمَا شَاءَ أَنْ يَدْعُوَ

مترجم:

1780.

شیبان بن فروخ نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں سلیمان بن مغیرہ نے حدیث سنائی، کہا: ہمیں ثابت بنانے نے عبداللہ بن رباح سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: کئی وفود حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گئے، یہ رمضان کا مہینہ تھا۔ (عبداللہ بن رباح نے کہا: ) ہم ایک دوسرے کے لیے کھانا تیار کرتے تو ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ جو ہمیں اکثر اپنی قیام گاہ پر بلاتے تھے۔ ایک (دن) میں نے کہا: میں بھی کیوں نہ کھانا تیار کروں اور سب کو اپنی قیام گاہ پر بلاؤں۔ میں نے کھانا بنانے کا کہہ دیا، پھر شام کو ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے ملا اور کہا: آج کی رات میرے یہاں دعوت ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: تو نے مجھ سے پہلے کہہ دیا۔ (یعنی آج میں دعوت کرنے والا تھا) میں نے کہا: ہاں، پھر میں نے ان سب کو بلایا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: اے انصار کی جماعت! کیا میں تمہیں تمہارے متعلق احادیث میں سے ایک حدیث نہ بتاؤں؟ پھر انہوں نے مکہ کے فتح ہونے کا ذکر کیا۔ اس کے بعد کہا: رسول اللہ ﷺ تشریف لائے یہاں تک کہ مکہ میں داخل ہو گئے، پھر دو میں سے ایک بازو پر زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کو بھیجا اور دوسرے بازو پر خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کو، ابوعبیدہ (بن جراح رضی اللہ تعالی عنہ کو ان لوگوں کا سردار کیا جن کے پاس زرہیں نہ تھیں۔ انہوں نے گھاٹی کے درمیان والا راستہ اختیار کیا تو رسول اللہ ﷺ ایک دستے میں تھے۔ آپ ﷺ نے مجھے دیکھا تو فرمایا: ’’ابوہریرہ!‘‘ میں نے کہا: حاضر ہوں، اللہ کے رسول! آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میرے ساتھ انصاری کے سوا کوئی نہ آئے۔‘‘ شیبان کے علاوہ دوسرے راویوں نے اضافہ کیا: آپﷺ نے فرمایا: ’’میرے لیے انصار کو آواز دو۔‘‘ انصار آپﷺ کے اردگرد آ گئے۔ اور قریش نے بھی اپنے اوباش لوگوں اور تابعداروں کو اکٹھا کیا اور کہا: ہم ان کو آگے کرتے ہیں، اگر کوئی چیز (کامیابی) ملی تو ہم بھی ان کے ساتھ ہیں اور اگر ان پر آفت آئی تو ہم سے جو مانگا جائے گا دے دیں گے۔ (دیت، جرمانہ وغیرہ۔) آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم قریش کے اوباشوں اور تابعداروں (ہر کام میں پیروی کرنے والوں) کو دیکھ رہے ہو؟‘‘ پھر آپﷺ نے دونوں ہاتھوں سے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر (مارتے ہوئے) اشارہ فرمایا: ’’(ان کا صفایا کر دو، ان کا فتنہ دبا دو)‘‘، پھر فرمایا: ’’یہاں تک کہ تم مجھ سے صفا پر آ ملو۔‘‘ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: پھر ہم چلے، ہم میں سے جو کوئی (کافروں میں سے) جس کسی کو مارنا چاہتا، مار ڈالتا اور کوئی ہماری طرف کسی چیز (ہتھیار) کو آگے تک نہ کرتا، یہاں تک کہ ابوسفیان رضی اللہ تعالی عنہ آئے اور کہنے لگے: اللہ کے رسول! قریش کی جماعت (کے خون) مباح کر دیے گئے اور آج کے بعد قریش نہ رہے۔ رسول اللہ ﷺ نے (اپنا سابقہ بیان دہراتے ہوئے) فرمایا: ’’جو شخص ابوسفیان کے گھر کے اندر چلا جائے اس کو امن ہے۔‘‘ انصار ایک دوسرے سے کہنے لگے: ان کو (یعنی رسول اللہ ﷺ کو) اپنے وطن کی الفت اور اپنے کنبے والوں پر شفقت آ گئی ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: اور وحی آنے لگی اور جب وحی آنے لگتی تھی تو ہم سے مخفی نہ رہتی۔ جب وحی آتی تو وحی (کا نزول) ختم ہونے تک کوئی شخص آپ ﷺ کی طرف اپنی آنکھ نہ اٹھاتا تھا، غرض جب وحی ختم ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اے انصار کے لوگو!‘‘ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم حاضر ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم نے یہ کہا: اس شخص (کے دل میں) اپنے گاؤں کی الفت آ گئی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا: یقیناً ایسا تو ہوا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ہرگز نہیں، میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ میں نے اللہ تعالیٰ کی طرف ہجرت کی اور تمہاری طرف (آیا) اب میری زندگی بھی تمہاری زندگی (کے ساتھ) ہے اور موت بھی تمہارے ساتھ ہے۔‘‘ یہ سن کر انصار روتے ہوئے آگے بڑھے، وہ کہہ رہے تھے: اللہ تعالیٰ کی قسم! ہم نے کہا جو کہا محض اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ شدید چاہت (اور ان کی معیت سے محرومی کے خوف) کی وجہ سے کہا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’بے شک اللہ اور اس کا رسول تمہاری تصدیق کرتے ہیں اور تمہارا عذر قبول کرتے ہیں۔‘‘ پھر لوگ ابوسفیان ؓ کے گھر کی طرف آ گئے اور لوگوں نے اپنے دروازے بند کر لیے اور رسول اللہ ﷺ حجراسود کے پاس تشریف لے آئے اور اس کو چوما، پھر بیت اللہ کا طواف کیا، پھر آپ بیت اللہ کے پہلو میں ایک بت کے پاس آئے، لوگ اس کی پوجا کیا کرتے تھے، اس وقت آپ ﷺ کے ہاتھ میں کمان تھی، آپ ﷺ نے اس کو ایک طرف سے پکڑا ہوا تھا، جب آپ بت کے پاس آئے تو اس کی آنکھ میں چبھونے لگے اور فرمانے لگے: ’’حق آ گیا اور باطل مٹ گیا۔‘‘ جب اپنے طواف سے فارغ ہوئے تو کوہِ صفا پر آئے، اس پر چڑھے یہاں تک کہ بیت اللہ کی طرف نظر اٹھائی اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے، پھر اللہ تعالیٰ کی حمد کرنے لگے اور اللہ سے جو مانگنا چاہا وہ مانگنے لگے۔