قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ (بَابُ صُلْحِ الْحُدَيْبِيَةِ فِي الْحُدَيْبِيَةِ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

1785. حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ نُمَيْرٍ، ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ سِيَاهٍ، حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ: قَامَ سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ يَوْمَ صِفِّينَ، فَقَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ، اتَّهِمُوا أَنْفُسَكُمْ، لَقَدْ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ وَلَوْ نَرَى قِتَالًا لَقَاتَلْنَا، وَذَلِكَ فِي الصُّلْحِ الَّذِي كَانَ بَيْنَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ الْمُشْرِكِينَ، فَجَاءَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَأَتَى رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَلَسْنَا عَلَى حَقٍّ وَهُمْ عَلَى بَاطِلٍ؟ قَالَ: «بَلَى»، قَالَ: أَلَيْسَ قَتْلَانَا فِي الْجَنَّةِ وَقَتْلَاهُمْ فِي النَّارِ؟ قَالَ: «بَلَى»، قَالَ: فَفِيمَ نُعْطِي الدَّنِيَّةَ فِي دِينِنَا، وَنَرْجِعُ، وَلَمَّا يَحْكُمِ اللهُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ، فَقَالَ: «يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، إِنِّي رَسُولُ اللهِ وَلَنْ يُضَيِّعَنِي اللهُ أَبَدًا»، قَالَ: فَانْطَلَقَ عُمَرُ فَلَمْ يَصْبِرْ مُتَغَيِّظًا، فَأَتَى أَبَا بَكْرٍ، فَقَالَ: يَا أَبَا بَكْرٍ أَلَسْنَا عَلَى حَقٍّ وَهُمْ عَلَى بَاطِلٍ؟ قَالَ: بَلَى، قَالَ: أَلَيْسَ قَتْلَانَا فِي الْجَنَّةِ وَقَتْلَاهُمْ فِي النَّارِ؟ قَالَ: بَلَى، قَالَ: فَعَلَامَ نُعْطِي الدَّنِيَّةَ فِي دِينِنَا، وَنَرْجِعُ وَلَمَّا يَحْكُمِ اللهُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ؟ فَقَالَ: يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، إِنَّهُ رَسُولُ اللهِ وَلَنْ يُضَيِّعَهُ اللهُ أَبَدًا، قَالَ: فَنَزَلَ الْقُرْآنُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْفَتْحِ، فَأَرْسَلَ إِلَى عُمَرَ، فَأَقْرَأَهُ إِيَّاهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَوْ فَتْحٌ هُو؟ قَالَ: «نَعَمْ»، فَطَابَتْ نَفْسُهُ وَرَجَعَ

مترجم:

1785.

حبیب بن ابی ثابت نے ابووائل (شقیق) سے روایت کی، انہوں نے کہا: سہل بن حنیف رضی اللہ تعالی عنہ جنگ صفین کے روز کھڑے ہوئے اور (لوگوں کو مخاطب کر کے) کہا: لوگو! (امیر المومنین پر الزام لگانے کے بجائے) خود کو الزام دو (صلح کو مسترد کر کے اللہ اور اس کے بتائے ہوئے راستے سے تم ہٹ رہے ہو) ہم حدیبیہ کے دن رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھے اور اگر ہم جنگ (ہی کو ناگزیر) دیکھتے تو جنگ کر گزرتے۔ یہ اس صلح کا واقعہ ہے جو رسول اللہ ﷺ اور مشرکین کے درمیان ہوئی۔ (اب تو مسلمانوں کے دو گروہوں کا معاملہ ہے۔) عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ آئے، رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’کیوں نہیں!‘‘ عرض کی: کیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے مقتول آگ میں نہ جائیں گے؟ فرمایا: ’’کیوں نہیں!‘‘ عرض کی: تو ہم اپنے دین میں نیچے لگ کر (صلح) کیوں کریں (نیچے لگ کر کیوں صلح کریں؟) اور اس طرح کیوں لوٹ جائیں کہ اللہ نے ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ نہیں کیا؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’خطاب کے بیٹے! میں اللہ کا رسول ہوں، (اس کے حکم سے صلح کر رہا ہوں) اللہ مجھے کبھی ضائع نہیں کرے گا۔‘‘ کہا: عمر رضی اللہ تعالی عنہ غصے کے عالم میں چل پڑے اور صبر نہ کر سکے۔ وہ ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آئے اور کہا: اے ابوبکر! کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں؟ کہا: کیوں نہیں! کہا: کیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے مقتول آگ میں نہیں؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں! (حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے) کہا: تو ہم اپنے دین میں نیچے لگ کر (جیسی صلح وہ چاہتے ہیں انہیں) کیوں دیں؟ اور اس طرح کیوں لوٹ جائیں کہ اللہ نے ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ نہیں کیا؟ تو انہوں نے کہا: ابن خطاب! وہ اللہ کے رسول ہیں، اللہ انہیں ہرگز کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ کہا: تو رسول اللہ ﷺ پر فتح (کی خوشخبری) کے ساتھ قرآن اترا۔ آپ ﷺ نے عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو بلوایا اور انہیں (جو نازل ہوا تھا) وہ پڑھوایا۔ انہوں نے عرض کی: اے اللہ کے رسولﷺ! کیا یہ فتح ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ہاں۔‘‘ تو (اس پر) عمر رضی اللہ رنہ کا دل خوش ہو گیا اور وہ لوٹ آئے۔