قسم الحديث (القائل): قدسی ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الْإِيمَانِ (بَابُ آخَرِ أَهْلِ النَّارِ خُرُوجًا)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

187. حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " آخِرُ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ رَجُلٌ، فَهْوَ يَمْشِي مَرَّةً، وَيَكْبُو مَرَّةً، وَتَسْفَعُهُ النَّارُ مَرَّةً، فَإِذَا مَا جَاوَزَهَا الْتَفَتَ إِلَيْهَا، فَقَالَ: تَبَارَكَ الَّذِي نَجَّانِي مِنْكِ، لَقَدْ أَعْطَانِي اللهُ شَيْئًا مَا أَعْطَاهُ أَحَدًا مِنَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ، فَتُرْفَعُ لَهُ شَجَرَةٌ، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ، أَدْنِنِي مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ فَلِأَسْتَظِلَّ بِظِلِّهَا، وَأَشْرَبَ مِنْ مَائِهَا، فَيَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ: يَا ابْنَ آدَمَ، لَعَلِّي إِنَّ أَعْطَيْتُكَهَا سَأَلْتَنِي غَيْرَهَا، فَيَقُولُ: لَا، يَا رَبِّ، وَيُعَاهِدُهُ أَنْ لَا يَسْأَلَهُ غَيْرَهَا، وَرَبُّهُ يَعْذِرُهُ لِأَنَّهُ يَرَى مَا لَا صَبْرَ لَهُ عَلَيْهِ، فَيُدْنِيهِ مِنْهَا، فَيَسْتَظِلُّ بِظِلِّهَا، وَيَشْرَبُ مِنْ مَائِهَا، ثُمَّ تُرْفَعُ لَهُ شَجَرَةٌ هِيَ أَحْسَنُ مِنَ الْأُولَى، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ، أَدْنِنِي مِنْ هَذِهِ لِأَشْرَبَ مِنْ مَائِهَا، وَأَسْتَظِلَّ بِظِلِّهَا، لَا أَسْأَلُكَ غَيْرَهَا، فَيَقُولُ: يَا ابْنَ آدَمَ، أَلَمْ تُعَاهِدْنِي أَنْ لَا تَسْأَلَنِي غَيْرَهَا، فَيَقُولُ: لَعَلِّي إِنْ أَدْنَيْتُكَ مِنْهَا تَسْأَلُنِي غَيْرَهَا، فَيُعَاهِدُهُ أَنْ لَا يَسْأَلَهُ غَيْرَهَا، وَرَبُّهُ يَعْذِرُهُ لِأَنَّهُ يَرَى مَا لَا صَبْرَ لَهُ عَلَيْهِ، فَيُدْنِيهِ مِنْهَا فَيَسْتَظِلُّ بِظِلِّهَا، وَيَشْرَبُ مِنْ مَائِهَا، ثُمَّ تُرْفَعُ لَهُ شَجَرَةٌ عِنْدَ بَابُِ الْجَنَّةِ هِيَ أَحْسَنُ مِنَ الْأُولَيَيْنِ، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ، أَدْنِنِي مِنْ هَذِهِ لِأَسْتَظِلَّ بِظِلِّهَا، وَأَشْرَبَ مِنْ مَائِهَا، لَا أَسْأَلُكَ غَيْرَهَا، فَيَقُولُ: يَا ابْنَ آدَمَ، أَلَمْ تُعَاهِدْنِي أَنْ لَا تَسْأَلَنِي غَيْرَهَا، قَالَ: بَلَى يَا رَبِّ، هَذِهِ لَا أَسْأَلُكَ غَيْرَهَا، وَرَبُّهُ يَعْذِرُهُ لِأَنَّهُ يَرَى مَا لَا صَبْرَ لَهُ عَلَيْهَا، فَيُدْنِيهِ مِنْهَا، فَإِذَا أَدْنَاهُ مِنْهَا فَيَسْمَعُ أَصْوَاتَ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ، أَدْخِلْنِيهَا، فَيَقُولُ: يَا ابْنَ آدَمَ مَا يَصْرِينِي مِنْكَ؟ أَيُرْضِيكَ أَنْ أُعْطِيَكَ الدُّنْيَا وَمِثْلَهَا مَعَهَا؟ قَالَ: يَا رَبِّ، أَتَسْتَهْزِئُ مِنِّي وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ؟ "، فَضَحِكَ ابْنُ مَسْعُودٍ، فَقَالَ: أَلَا تَسْأَلُونِي مِمَّ أَضْحَكُ فَقَالُوا: مِمَّ تَضْحَكُ، قَالَ: هَكَذَا ضَحِكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: مِمَّ تَضْحَكُ يَا رَسُولَ اللهِ، قَالَ: " مِنْ ضَحِكِ رَبِّ الْعَالَمِينَ حِينَ قَالَ: أَتَسْتَهْزِئُ مِنِّي وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ؟ فَيَقُولُ: إِنِّي لَا أَسْتَهْزِئُ مِنْكَ، وَلَكِنِّي عَلَى مَا أَشَاءُ قَادِرٌ ".

مترجم:

187.

انسؓ نےحضرت ابن مسعودؓ سے روایت کی، کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جنت میں سب سے آخر میں وہ آدمی داخل ہو گا، جو کبھی چلےگا، کبھی چہرے کے بل گرے گا اور کبھی آگ سے جھلسا دے گی۔ جب و ہ آگ سے نکل آ ئے گا، تو پلٹ کر اس کو دیکھے گا اور کہے گا: بڑی برکت والی ہے وہ ذات جس نے مجھے تجھ سے نجات دے دی، اللہ نے مجھے ایسی چیز عطا فر دی جو اس نے اگلوں پچھلوں میں سے کسی کو عطا نہیں فرمائی۔ اسے بلندی پر ایک درخت دکھایا جائے گا، تو وہ کہے گا: اے میرے رب! مجھے اس درخت کے قریب کردے، تاکہ میں اس کے سائے میں دھوپ سے نجات حاصل کروں، اور اس کے پانی سے پیاس بجھاؤں۔ اس پر اللہ عز وجل فرمائے گا: اے ابن آدم! ہو سکتا ہے کہ میں تمہیں یہ درخت دے دوں تو تم مجھ سے اس کے سوا کچھ اور مانگو۔ وہ کہے گا: نہیں، اے میرے رب! اور اللہ کے ساتھ عہد کرے گا، کہ وہ اس سے اور کچھ نہ مانگے گا۔ اس کا پروردگار اس کے عذر قبول کر لے گا، کیونکہ وہ ایسی چیز دیکھ رہا ہو گا، جس پر وہ صبر کر ہی نہیں سکتا۔ تو اللہ تعالیٰ اسے اس (درخت) کے قریب کر دے گا اور وہ اس کے سائے میں دھوپ سے محفوظ ہو جائے گا اور اس کاپانی پیے گا۔ پھر اسے اوپر ایک اور درخت دکھایا جائے گا، جو پہلے درخت سےزیادہ خوبصورت ہو گا، تو وہ کہے گا: اےمیرے رب! مجھے اس درخت کے قریب کر دے، تاکہ میں اس کے پانی سے سیراب ہوں اور اس کے سائے میں آرام کروں، میں تجھ سے اس کے سوا کچھ نہیں مانگوں گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائےگا: اے آدم کے بیٹے! کیا تم نے مجھ سے وعدہ نہ کیا تھا، کہ تم مجھ سے کچھ اورنہیں مانگو گے؟ اور فرمائے گا: مجھے لگتا ہے، اگر میں تمہیں اس کے قریب کردوں، تو تم مجھ سے کچھ اور بھی مانگو گے۔ وہ اللہ تعالیٰ سے وعدہ کرے گا، کہ وہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں مانگے گا، اس کا رب تعالیٰ اس کا عذر قبول کر لے گا، کیونکہ وہ ایسی چیز دیکھ رہا ہو گا جس کے سامنے اس سے صبر نہیں ہو سکتا۔ اس پر اللہ اسے اس درخت کے قریب کر دے گا۔ وہ اس کے سائے کے نیچے آ جائے گا اور اس کےپانی سے پیاس بجھائے گا۔ اور پھر ایک درخت جنت کے دروازے کے پاس دکھایا جائے گا جو پہلے دونوں درختوں سے زیادہ خوبصورت ہو گا، تو وہ عرض کرے گا: اے میرے رب! مجھے اس درخت کے قریب کر دے، تاکہ میں اس کے سائے سے فائدہ اٹھاؤں، اور اس کے پانی سے پیاس بجھاؤں، میں تم سے اور کچھ نہیں مانگوں گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے آدم کے بیٹے! کیا تم نے میرے ساتھ وعدہ نہیں کیا تھا، کہ او رکچھ نہیں مانگو گے؟ وہ کہے گا:کیوں نہیں میرے رب! (وعدہ کیا تھا) بس یہی، اس کے علاوہ اور کچھ نہیں مانگوں گا۔ اس کا رب اس کاعذر قبول کر لے گا، کیونکہ وہ ایسی چیز دیکھ رہا ہو گا جس پر وہ صبر کر ہی نہیں سکتا۔ تو وہ اس شخص کو اس (درخت) کے قریب کر دے گا، تو وہ اہل جنت کی آوازیں سنے گا۔ وہ کہے گا: اے میرے رب!مجھے اس میں داخل کر دے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے آدم کے بیٹے! وہ کیا چیز ہے جو تجھے راضی کر کے ہمارے درمیان سوالات کا سلسلہ ختم کر دے؟ کیا تم اس سے راضی ہو جاؤ گے، کہ میں تمہیں ساری دنیا اور اس کے برابر اور دے دوں؟ وہ کہے گا: اے میرے رب! کیا تو میری ہنسی اڑاتا ہے، جبکہ تو سارے جہانوں کا رب ہے۔‘‘ اس پر  ابن مسعودؓ ہنس پڑے اور کہا: کیا تم مجھ سے یہ نہیں پوچھو گے، کہ میں کیوں ہنسا؟ سامعین نے پوچھا: آپ کیوں ہنسے؟ کہا: اسی طرح رسول اللہ ﷺ ہنسے تھے، توصحابہ کرامؓ نے پوچھا تھا: اے اللہ کے رسول! آپ کیوں ہنس رہے ہیں؟ آپ ﷺنے فرمایا: ’’رب العالمین کے ہنس پڑنے پر، جب اس نے کہا کہ تو سارے جہانوں کارب ہے،میری ہنسی اڑاتا ہے؟ اللہ فرمائے گا: میں تیری ہنسی نہیں اڑاتا، بلکہ میں جو چاہوں کر سکتا ہوں۔ ‘‘