قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ الْإِمَارَةِ (بَابُ ثُبُوتِ الْجَنَّةِ لِلشَّهِيدِ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

1901. حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ النَّضْرِ بْنِ أَبِي النَّضْرِ، وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللهِ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، وَأَلْفَاظُهُمْ مُتَقَارِبَةٌ، قَالُوا: حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ وَهُوَ ابْنُ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بُسَيْسَةَ عَيْنًا يَنْظُرُ مَا صَنَعَتْ عِيرُ أَبِي سُفْيَانَ، فَجَاءَ وَمَا فِي الْبَيْتِ أَحَدٌ غَيْرِي، وَغَيْرُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا أَدْرِي مَا اسْتَثْنَى بَعْضَ نِسَائِهِ، قَالَ: فَحَدَّثَهُ الْحَدِيثَ، قَالَ: فَخَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَكَلَّمَ، فَقَالَ: «إِنَّ لَنَا طَلِبَةً، فَمَنْ كَانَ ظَهْرُهُ حَاضِرًا فَلْيَرْكَبْ مَعَنَا»، فَجَعَلَ رِجَالٌ يَسْتَأْذِنُونَهُ فِي ظُهْرَانِهِمْ فِي عُلْوِ الْمَدِينَةِ، فَقَالَ: «لَا، إِلَّا مَنْ كَانَ ظَهْرُهُ حَاضِرًا»، فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ حَتَّى سَبَقُوا الْمُشْرِكِينَ إِلَى بَدْرٍ، وَجَاءَ الْمُشْرِكُونَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يُقَدِّمَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ إِلَى شَيْءٍ حَتَّى أَكُونَ أَنَا دُونَهُ»، فَدَنَا الْمُشْرِكُونَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قُومُوا إِلَى جَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَوَاتُ وَالْأَرْضُ»، قَالَ: - يَقُولُ عُمَيْرُ بْنُ الْحُمَامِ الْأَنْصَارِيُّ: - يَا رَسُولَ اللهِ، جَنَّةٌ عَرْضُهَا السَّمَوَاتُ وَالْأَرْضُ؟ قَالَ: «نَعَمْ»، قَالَ: بَخٍ بَخٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا يَحْمِلُكَ عَلَى قَوْلِكَ بَخٍ بَخٍ؟» قَالَ: لَا وَاللهِ يَا رَسُولَ اللهِ، إِلَّا رَجَاءَةَ أَنْ أَكُونَ مِنْ أَهْلِهَا، قَالَ: «فَإِنَّكَ مِنْ أَهْلِهَا»، فَأَخْرَجَ تَمَرَاتٍ مِنْ قَرَنِهِ، فَجَعَلَ يَأْكُلُ مِنْهُنَّ، ثُمَّ قَالَ: لَئِنْ أَنَا حَيِيتُ حَتَّى آكُلَ تَمَرَاتِي هَذِهِ إِنَّهَا لَحَيَاةٌ طَوِيلَةٌ، قَالَ: فَرَمَى بِمَا كَانَ مَعَهُ مِنَ التَّمْرِ، ثُمَّ قَاتَلَهُمْ حَتَّى قُتِلَ

مترجم:

1901.

ثابت نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ ﷺ نے ابوسفیان کی خبر لانے کے لئے بُسیسہ (خزرجی انصاری) رضی اللہ تعالی عنہ کو جاسوس بنا کر بھیجا کہ دیکھے ابوسفیان کے (تجارتی) قافلے کی کیا صورتِ حال ہے۔ جس وقت وہ واپس آیا تو گھر میں میرے اور رسول اللہ ﷺ کے سوا اور کوئی نہیں تھا، ۔۔ (ثابت نے) کہا: مجھے انس رضی اللہ تعالی عنہ کا کسی ام المومنین کو مستثنیٰ کرنا معلوم نہیں ۔۔ کہا: اس نے آ کر آپ کو ساری بات بتائی تو رسول اللہ ﷺ باہر تشریف لائے اور فرمایا: ’’ہمیں کچھ (کرنا) مطلوب ہے، سو جس کے پاس سواری موجود ہو وہ ہمارے ساتھ سوار ہو کر چلے۔‘‘ کچھ لوگ بالائی مدینہ میں (موجود) اپنی سواریاں لانے کی اجازت طلب کرنے لگے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’نہیں، صرف وہی لوگ (ساتھ چلیں) جن کی سواریاں یہیں موجود ہوں۔‘‘ پھر رسول اللہ ﷺ اور آپ کے اصحاب چل پڑے اور مشرکین سے پہلے ’’بدر‘‘ پہنچ گئے، مشرکین بھی آ پہنچے، نبی ﷺ نے فرمایا: ’’کوئی شخص، جب تک میں اس کے پیچھے نہ ہوں، کسی چیز پر پیش قدمی نہ کرے۔‘‘ مشرکین قریب آ گئے تو نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اس جنت کی طرف بڑھ جس کی چوڑائی آسمان اور زمین ہیں۔‘‘ کہا: (یہ سن کر) حضرت عمیر بن حمام انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کہنے لگے: یا رسول اللہ! جنت جس کا عرض آسمان اور زمین ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’ہاں۔‘‘ اس نے کہا: واہ واہ! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تم نے یہ واہ واہ کس وجہ سے کہا؟‘‘ اس نے کہا: اللہ کے رسول! اس امید کے سوا اور کسی وجہ سے نہیں (کہا) کہ میں (بھی) جنت والوں میں سے ہو جاؤں، آپ نے فرمایا: ’’بلاشبہ تم اہل جنت میں سے ہو۔‘‘ حضرت عمیر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے ترکش سے کچھ کھجوریں نکال کر کھانی شروع کیں، پھر کہنے لگے: اگر میں اپنی ان کھجوروں کو کھا لینے تک زندہ رہا تو پھر یہ بڑی لمبی زندگی ہو گی (یعنی جنت ملنے میں دیر ہو جائے گی)، پھر انہوں نے، جو کھجوریں ان کے پاس تھیں، پھینکیں اور لڑائی شروع کر دی یہاں تک کہ شہید ہو گئے۔