قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: فعلی

صحيح مسلم: كِتَابُ الْأَشْرِبَةِ (بَابُ تَحْرِيمِ الْخَمْرِ، وَبَيَانِ أَنَّهَا تَكُونُ مِنْ عَصِيرِ الْعِنَبِ، وَمِنَ التَّمْرِ وَالْبُسْرِ وَالزَّبِيبِ، وَغَيْرِهَا مِمَّا يُسْكِرُ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

1979. حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ أَخْبَرَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ حَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ أَبِيهِ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ أَصَبْتُ شَارِفًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَغْنَمٍ يَوْمَ بَدْرٍ وَأَعْطَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَارِفًا أُخْرَى فَأَنَخْتُهُمَا يَوْمًا عِنْدَ بَابِ رَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَحْمِلَ عَلَيْهِمَا إِذْخِرًا لِأَبِيعَهُ وَمَعِي صَائِغٌ مِنْ بَنِي قَيْنُقَاعَ فَأَسْتَعِينَ بِهِ عَلَى وَلِيمَةِ فَاطِمَةَ وَحَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ يَشْرَبُ فِي ذَلِكَ الْبَيْتِ مَعَهُ قَيْنَةٌ تُغَنِّيهِ فَقَالَتْ أَلَا يَا حَمْزُ لِلشُّرُفِ النِّوَاءِ فَثَارَ إِلَيْهِمَا حَمْزَةُ بِالسَّيْفِ فَجَبَّ أَسْنِمَتَهُمَا وَبَقَرَ خَوَاصِرَهُمَا ثُمَّ أَخَذَ مِنْ أَكْبَادِهِمَا قُلْتُ لِابْنِ شِهَابٍ وَمِنْ السَّنَامِ قَالَ قَدْ جَبَّ أَسْنِمَتَهُمَا فَذَهَبَ بِهَا قَالَ ابْنُ شِهَابٍ قَالَ عَلِيٌّ فَنَظَرْتُ إِلَى مَنْظَرٍ أَفْظَعَنِي فَأَتَيْتُ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ زَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ فَأَخْبَرْتُهُ الْخَبَرَ فَخَرَجَ وَمَعَهُ زَيْدٌ وَانْطَلَقْتُ مَعَهُ فَدَخَلَ عَلَى حَمْزَةَ فَتَغَيَّظَ عَلَيْهِ فَرَفَعَ حَمْزَةُ بَصَرَهُ فَقَالَ هَلْ أَنْتُمْ إِلَّا عَبِيدٌ لِآبَائِي فَرَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَهْقِرُ حَتَّى خَرَجَ عَنْهُمْ

مترجم:

1979.

حجاج بن محمد نے ابن جریج سے روایت کی، کہا: مجھے ابن شہاب نے علی بن حسین بن علی سے حدیث بیان کی، انھوں نے اپنے والد حسین بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے، انھوں نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، کہا : مجھے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ بدر کے مال غنیمت میں سے ایک (جوان اونٹنی حاصل ہوئی۔ ایک اور جوان اونٹنی (خمس میں سے) رسول اللہ ﷺ نے مجھے عطا فرمائی ۔ایک دن میں نے ان دونوں اونٹنیوں کو ایک انصاری کے دروازے پر بٹھایا اور میں ان دونوں پر بیچنے کے لیے اذخر (کی خوشبو دار گھاس) لا دکر لانا چاہتا تھا۔۔۔ بنو قینقاع کا سنار بھی میرے ساتھ تھا ۔۔۔اور اس (کی قیمت) سے میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا (کے ساتھ اپنی شادی) کے ولیمے میں مدد لینا چاہتا تھا۔ حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس گھر میں (بیٹھے) شراب پی رہے تھے ،ان کے قریب ایک گانے والی عورت گا رہی تھی پھر وہ یہ اشعار گانے لگی۔ سنیں حمزہ!(اٹھ کر) فربہ اونٹنیوں کی طرف بڑھیں (دوسرا مصرع ہے۔ وَهُنَّ مُعَقَّلَاتٌ بِالْفِنَاءِ اور گھر کے آگے کھلی جگہ میں بندھی ہو ئی ہیں۔) حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تلوار سمیت لپک کر ان کی طرف بڑھے ان کے کوہانوں کو جڑ سے کاٹ لیا ان کے پہلو چیر دیے پھر ان کے کلیجے نکال لیے۔ میں نے ابن شہاب سے کہا: اور کو ہان بھی؟ انھوں نے کہا: وہ (حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ان دونوں کے کوہان جڑ سے کاٹ کر لے گئے۔ ابن شہاب نے کہا: حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: میں نے ایک ایسا منظر دیکھا جس نے مجھے دہلا کر رکھ دیا۔ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آپ کے پاس مو جود تھے ۔آپ زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ نکل پڑے۔ میں بھی آپ کے ساتھ چلنے لگا ۔آپ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے اور غصے کا اظہار فرمایا۔ حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آنکھ اٹھائی اور کہنے لگے: تم میرے آبا واجداد کے غلاموں سے بڑھ کر کیا ہو! (وہ دونوں جناب عبد المطلب کے پو تے تھے اور رشتے کے حوالے سے خدمت گزاری کے مقام پر تھے۔ حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رشتے میں ان سے ایک پشت اوپر تھے۔ انھوں نے شراب کی لہر میں اسی بات کو مبالغہ آمیز فخر و مباہات کے رنگ میں کہہ دیا) تو رسول اللہ ﷺ الٹے پاؤں واپس ہوئے اور ان کی محفل سے نکل آئے۔