تشریح:
فائدہ:
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا نقطۂ نظر یہی ہے کہ آپﷺ نے تانتیں کاٹنے اور آئندہ اونٹوں کی گردنوں میں ہار وغیرہ نہ ڈالنے کا حکم اسی لیے دیا تھا کہ لوگ سمجھتے تھے کہ یہ ہار اونٹوں کو نظر بد سے محفوظ رکھتے ہیں، جبکہ نظر بد سے اور ہر طرح کی تکلیف سے تحفظ صرف اللہ دیتا ہے۔ بعض دوسرے آئمہ نے اس حکم کی اور بھی حکمتیں بیان کی ہیں۔ امام محمد بن حسن کی رائے ہے کہ ایسے ہار کسی موٹی ٹہنی کے ساتھ اٹک کر اونٹ کا گلا گھونٹے کا سبب بن سکتے ہیں ابو عبیدہ کہتے ہیں: اس صورت میں جانور مرنے سے بچ جائے تو بھی اس طرح اسے شدید اذیت پہنچتی ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے ترجمۃ الباب (عنوان) سے یہ حکمت سامنے آتی ہے کہ اس قسم کی چیزوں کے ساتھ گھنٹیاں لٹکائی جاتی تھیں جن سے رسول اللہ ﷺ نے بالصراحت منع فرمایا ہے۔ یہ سب یا ان میں سے کوئی سی حکمت بھی ملحوظ ہو سکتی ہے۔ بہرحال جانوروں کو اس طرح کے ہار پہنانا ممنوع ہے۔ بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ اگر محض زینت مقصود ہو، گھنٹیاں بندھی ہوئی نہ ہوں اور ڈوریاں کچی ہوں، یعنی ممانعت کی اسباب میں سے کوئی سبب موجود نہ ہو تو ممانعت ختم ہو جاتی ہے۔ والله علم بالصواب-