تشریح:
فوائدومسائل:
(1) پچھلی روایات میں گھروں میں رہنے والی مخلوق کا جنّان کے لفظ سے تذکرہ ہوا ہے۔ جنان جانّ کی جمع ہے یہ لفظ قرآن مجید میں سانپ اور جن دونوں کے لیے استعمال ہوا ہے۔ سورہ نمل کے الفاظ یہ ہیں: ﴿وَأَلْقِ عَصَاكَ فَلَمَّا رَآهَا تَهْتَزُّ كَأَنَّهَا جَانٌّ وَلَّىٰ مُدْبِرًا وَلَمْ يُعَقِّبْ يَا مُوسَىٰ لَا تَخَفْ إِنِّي لَا يَخَافُ لَدَيَّ الْمُرْسَلُونَ﴾ ’’اور اپنی لاٹھی پھینک، تو جب اس نے اسے دیکھا کہ حرکت کر رہی ہے جیسے وہ سانپ ہے تو پیٹھ پھیر کر لوٹا اور واپس نہ مڑا۔ اے موسی! مت ڈرو، بے شک میرے پاس رسول نھیں ڈرتے۔‘‘ (النمل10:27) سورہ قصص میں ﴿أَنْ أَلْقِ عَصَاكَ فَلَمَّا رَآهَا تَهْتَزُّ كَأَنَّهَا جَانٌّ وَلَّىٰ مُدْبِرًا وَلَمْ يُعَقِّبْ يَا مُوسَىٰ أَقْبِلْ وَلَا تَخَفْ إِنَّكَ مِنَ الْآمِنِينَ ﴾ ’’اور یہ اپنی لاٹھی پھینک، تو جب اس نے اسے دیکھا کہ حرکت کر رہی ہے جیسے وہ ایک سانپ ہے تو پیٹھ بھیر کر چل دیا اور پیچھے نہیں مڑا۔ اے موسی! آگے بڑھ اور خوف نہ کر، یقیناً تو امن والوں سے ہے‘‘ (القصص،31:28) ان آیات میں جانّ سانپ کے معنی میں ہے اور سورہ رحمان میں یہ لفظ آیات :39، 56 اور 74 میں جنّ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ ان دونوں میں ایک تو معنوی مناسبت ہے۔ جنّ کے معنی اندھیرا ہونے، نظر نہ آنے اور چھپ جانے کے ہیں۔ جن نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں۔ اور سانپ بھی بلوں وغیرہ میں چھپ کر ہی رہتے ہیں۔ جنّ اتنہائی لطیف جسم کے مالک ہوتے ہیں۔ انھیں اللہ نے یہ صلاحیت دے رکھی ہے کہ وہ ظاہری اجسام میں سے کسی کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔ جب وہ نظر آنے والی شکل اختیار کرتے ہیں۔ (اس کی وجہ سے ہم ناواقف ہیں) تو ان کے لیے مناسب ترین وہی شکل ہو سکتی ہے جو نظر آسکنے کے باوجود پوشیدہ رہتی ہو اور جس کےلیے پوشیدگی اختیار کرنا آسان ہو۔ سانپ کا جسم اس مقصد کے لیے سب سے مناسب ہے اورمندرجہ بالاحدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اسی جسم میں رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ مدینہ میں جنات اسی جسم کو اختیار کر کے رہتے تھے۔ عام انسان چونکہ پہچان نہیں سکتا کہ اس جسم میں سانپ ہے یا جن، اسی لیے گھروں میں لمبی مدت سے رہنے والے سانپوں کو فوری طور پر قتل کرنے سے منع کر دیا گیا اور یہ ہدایت کی گئی کہ انھیں تین دن تنبیہ کی جائے، وہاں سے چلے جانے کا کہا جائے۔ اگر وہ مسلمان جنّ ہے تو چلا جائے گا۔ نہیں تو اس کا قتل جائز ہو گا۔
(2) اس نوجوان کے ساتھ جو واقعہ پیش آیا تھا اس میں ضروری نہیں کہ وہ سانپ جن ہی تھا اور وہ نوجوان جنوں کے انتقام کا شکار ہوا تھا۔ عین ممکن ہے ہ وہ سانپ کے زہر ہی سے مرا ہو، البتہ اس نوجوان نے اس سانپ کو گھر میں دیکھتے ہی فوراً نشانہ بنایا تھا اور شریعت کا حکم یہ ہے کہ لمبی مدت سے گھر میں رہنے والے سانپ کو فوراً قتل کرنے کے بجائے تین دن تک اسے تنبیہ کی جائے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اس موقع پر اس شرعی حکم کی تعلیم دینا ضروری سمجھا۔