قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ فَضَائِلِ الصَّحَابَةِؓ (بَابُ مِنْ فَضَائِلِ أَبِي ذَرٍّ ؓ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

2474. وحَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَرْعَرَةَ السَّامِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ - وَتَقَارَبَا فِي سِيَاقِ الْحَدِيثِ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ حَاتِمٍ - قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا الْمُثَنَّى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا بَلَغَ أَبَا ذَرٍّ مَبْعَثُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ قَالَ لِأَخِيهِ: ارْكَبْ إِلَى هَذَا الْوَادِي، فَاعْلَمْ لِي عِلْمَ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ يَأْتِيهِ الْخَبَرُ مِنَ السَّمَاءِ، فَاسْمَعْ مِنْ قَوْلِهِ ثُمَّ ائْتِنِي، فَانْطَلَقَ الْآخَرُ حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ، وَسَمِعَ مِنْ قَوْلِهِ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى أَبِي ذَرٍّ فَقَالَ: رَأَيْتُهُ يَأْمُرُ بِمَكَارِمِ الْأَخْلَاقِ وَكَلَامًا مَا هُوَ بِالشِّعْرِ، فَقَالَ: مَا شَفَيْتَنِي فِيمَا أَرَدْتُ فَتَزَوَّدَ وَحَمَلَ شَنَّةً لَهُ، فِيهَا مَاءٌ حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ، فَأَتَى الْمَسْجِدَ فَالْتَمَسَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا يَعْرِفُهُ، وَكَرِهَ أَنْ يَسْأَلَ عَنْهُ، حَتَّى أَدْرَكَهُ - يَعْنِي اللَّيْلَ - فَاضْطَجَعَ، فَرَآهُ عَلِيٌّ فَعَرَفَ أَنَّهُ غَرِيبٌ، فَلَمَّا رَآهُ تَبِعَهُ، فَلَمْ يَسْأَلْ وَاحِدٌ مِنْهُمَا صَاحِبَهُ عَنْ شَيْءٍ، حَتَّى أَصْبَحَ، ثُمَّ احْتَمَلَ قِرْبَتَهُ وَزَادَهُ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَظَلَّ ذَلِكَ الْيَوْمَ، وَلَا يَرَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى أَمْسَى، فَعَادَ إِلَى مَضْجَعِهِ، فَمَرَّ بِهِ عَلِيٌّ، فَقَالَ: مَا آنَ لِلرَّجُلِ أَنْ يَعْلَمَ مَنْزِلَهُ؟ فَأَقَامَهُ، فَذَهَبَ بِهِ مَعَهُ، وَلَا يَسْأَلُ وَاحِدٌ مِنْهُمَا صَاحِبَهُ عَنْ شَيْءٍ، حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمُ الثَّالِثِ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ، فَأَقَامَهُ عَلِيٌّ مَعَهُ، ثُمَّ قَالَ لَهُ: أَلَا تُحَدِّثُنِي؟ مَا الَّذِي أَقْدَمَكَ هَذَا الْبَلَدَ؟ قَالَ: إِنْ أَعْطَيْتَنِي عَهْدًا وَمِيثَاقًا لَتُرْشِدَنِّي، فَعَلْتُ، فَفَعَلَ. فَأَخْبَرَهُ فَقَالَ: فَإِنَّهُ حَقٌّ وَهُوَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا أَصْبَحْتَ فَاتَّبِعْنِي، فَإِنِّي إِنْ رَأَيْتُ شَيْئًا أَخَافُ عَلَيْكَ، قُمْتُ كَأَنِّي أُرِيقُ الْمَاءَ، فَإِنْ مَضَيْتُ فَاتَّبِعْنِي حَتَّى تَدْخُلَ مَدْخَلِي، فَفَعَلَ، فَانْطَلَقَ يَقْفُوهُ، حَتَّى دَخَلَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدَخَلَ مَعَهُ، فَسَمِعَ مِنْ قَوْلِهِ، وَأَسْلَمَ مَكَانَهُ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ارْجِعْ إِلَى قَوْمِكَ فَأَخْبِرْهُمْ حَتَّى يَأْتِيَكَ أَمْرِي» فَقَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَأَصْرُخَنَّ بِهَا بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ فَخَرَجَ حَتَّى أَتَى الْمَسْجِدَ، فَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ، وَثَارَ الْقَوْمُ فَضَرَبُوهُ حَتَّى أَضْجَعُوهُ، فَأَتَى الْعَبَّاسُ فَأَكَبَّ عَلَيْهِ، فَقَالَ: وَيْلَكُمْ أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنَّهُ مِنْ غِفَارٍ، وَأَنَّ طَرِيقَ تُجَّارِكُمْ إِلَى الشَّامِ عَلَيْهِمْ، فَأَنْقَذَهُ مِنْهُمْ، ثُمَّ عَادَ مِنَ الْغَدِ بِمِثْلِهَا، وَثَارُوا إِلَيْهِ فَضَرَبُوهُ، فَأَكَبَّ عَلَيْهِ الْعَبَّاسُ فَأَنْقَذَهُ

مترجم:

2474.

ابو جمرہ نے حضرت ابن عباس  رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی، کہا: جب ابو ذر رضی اللہ تعالی عنہ کو مکہ میں نبی ﷺ کی بعثت کی خبر پہنچی تو انہوں نے اپنے بھائی سے کہا: اس وادی میں (جس میں مکہ آباد ہے) جاؤ اور وہاں جا کرمیری خاطر اس آدمی کے متعلق معلومات حاصل کرو جو دعویٰ کرتے ہیں کہ اس کے پاس آسمان سے خبر آتی ہے، ان کا قول سنو اور پھر میرے پاس آؤ، تو دوسرا (بھائی) روانہ ہوا حتی کہ مکہ آیا اور آپ کی بات سنی، پھر ابو ذر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس لوٹ گیا اور کہا: میں نے آپﷺ کو دیکھا ہے، مکارم اخلاق کا حکم دیتے ہیں اور (ان کے پاس) کلام ہے جو شعر نہیں (ہو سکتا۔) تو انہوں (ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ) نے کہا: میں جو چاہتا تھا تو نے میری وہ ضرورت پوری نہیں کی، چنانچہ انہوں نے (مکہ تک پہنچنے کا) زادراہ لیا اور اپنا مشکیزہ اٹھایا جس میں پانی تھا، حتی کہ مکہ پہنچے، مسجد (حرام) میں آئے اور آپ کی تلاش شروع کر دی، وہ آپ کو پہچانتے نہیں تھے اور انہیں بات پسند نہ تھی کہ کسی سے آپﷺ کے بارے میں پوچھیں، یہاں تک کہ ان کو آ لیا۔ یعنی رات نے۔۔ پھر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے (آکر) انہیں دیکھا تو پہچان لیا کہ وہی اجنبی ہیں (جن کی تلاش میں ان کو بھیجا گیا تھا۔) جب انہوں (ابو ذر رضی اللہ تعالی عنہ) نے ان کو دیکھا تو ان کے پیچھے چل پڑے۔ دونوں میں سے کسی ایک نے اپنے ساتھی سے کسی چیزکے بارے میں کچھ نہ پوچھا، یہاں تک کہ صبح ہو گئی، پھر وہ اپنا چھوٹا سا مشکیزہ اور زادِراہ اٹھا کر مسجد آ گئے۔ انہوں وہ دن (اسی طرح) گزارا کہ وہ نبی ﷺ کو نہیں دیکھ رہےتھے یہاں تک کہ شام ہو گئی۔ وہ اپنے سونے کی جگہ واپس آگئے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ (پھر) ان کے پاس سے گزرےاور کہا: کیا اس آدمی کے لیے ابھی وقت نہیں آیا کہ وہ اپنے ٹھکانے کو جان لے؟ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کو اٹھایا اور انہیں اپنے ساتھ لے گئے۔ دونوں میں سے کوئی ایک بھی اپنے ساتھی سے کسی چیز کے بارے میں کچھ نہیں پوچھ رہا تھا، یہاں تک  کہ جب تیسرا دن ہوا تو انہوں نے وہی کیا، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ انہیں اٹھا کر اپنے ساتھ لے گئے، پھر ان سے کہا: کیا آپ مجھے بتائیں گے نہیں کہ آپ کو کون سا کام اس شہر میں لایا ہے؟ انہوں نے کہا: اگر آپ میرے ساتھ پختہ عہد و میثاق کریں کہ آپ میری رہنمائی کریں گےتو (جو آپ کہتے ہیں وہی) کروں گا، تو انہوں نے (اپنا مقصد) بتا دیا۔ انہوں ( حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ) نے ان سے کہا: وہ  (بات جو آپﷺ کہتے ہیں) سچ ہے آپ اللہ کے رسول ہیں جب آپ صبح کریں تو میرے پیچھے چلے آئیں، اگر میں نے کوئی ایسی بات دیکھی جو میں نے آپ کے لیے خطرہ سمجھی تو میں اس طرح کھڑا ہو جاؤں گا جیسے پانی گرا رہا ہوں اور اگر میں چلتا رہوں تو میرے پیچھے چلے آنا اور جہاں سے میں داخل ہوں تم بھی وہیں سے اندر آ جانا، انہوں نے ایسے ہی کیا، وہ ان (حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ) کے پیچھے پیچھے چلتے رہے یہاں تک کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ہاں داخل ہو گئے۔ وہ (ابو ذر رضی اللہ تعالی عنہ) بھی ان کے ساتھ اندر داخل ہو گئے۔ اور آپ کی بات سنی اور اسی جگہ اسلام قبول کر لیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اپنی قوم کے پاس واپس چلے جاؤ ، انہیں( اسلا م کے متعلق )بتاؤ یہاں تک کہ تمہیں میرا (اگلا) حکم مل جائے۔‘‘ اس پر انہوں نے کہا: مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں ان (مشرکین) کے درمیان چیخ کر یہ (اقرار والی) بات کروں گا، پھر وہ نکل کر مسجد (حرام) آ گئےاور اپنی اونچی آواز سے پکار کر کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ ساری قوم بھڑک اٹھی انہیں مارا اور زمین پر لٹا دیا، حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ آئے، ان پر جھک گئے اور کہا، تمہارا ناس ہو! تمہیں معلوم نہیں یہ قبیلہ غفار میں سے ہے اور شام کی طرف  تمہارے تاجروں کا راستہ اسی کی سر زمین پر (سے گزرتا) ہے۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں ان سے بچایا۔ دوسرے دن انہوں (ابو ذر) نے پھر وہی کیا- لوگ بھڑک کر ان کی طرف بڑھے، انھیں مارا اور حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے ان پر جھک کر انہیں بچایا۔