قسم الحديث (القائل): مرفوع ، اتصال السند: متصل ، قسم الحديث: قولی

صحيح مسلم: كِتَابُ فَضَائِلِ الصَّحَابَةِؓ (بَابُ مِنْ فَضَائِلِ أَبِي مُوسَى وَأَبِي عَامِرٍ الْأَشْعَرِيَّيْنِؓ)

حکم : أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة 

2498. حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ بَرَّادٍ أَبُو عَامِرٍ الْأَشْعَرِيُّ، وَأَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، وَاللَّفْظُ لِأَبِي عَامِرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: لَمَّا فَرَغَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِنْ حُنَيْنٍ، بَعَثَ أَبَا عَامِرٍ عَلَى جَيْشٍ إِلَى أَوْطَاسٍ، فَلَقِيَ دُرَيْدَ بْنَ الصِّمَّةِ، فَقُتِلَ دُرَيْدٌ وَهَزَمَ اللهُ أَصْحَابَهُ، فَقَالَ أَبُو مُوسَى: وَبَعَثَنِي مَعَ أَبِي عَامِرٍ، قَالَ: فَرُمِيَ أَبُو عَامِرٍ فِي رُكْبَتِهِ، رَمَاهُ رَجُلٌ مِنْ بَنِي جُشَمٍ بِسَهْمٍ، فَأَثْبَتَهُ فِي رُكْبَتِهِ فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِ فَقُلْتُ: يَا عَمِّ مَنْ رَمَاكَ؟ فَأَشَارَ أَبُو عَامِرٍ إِلَى أَبِي مُوسَى، فَقَالَ: إِنَّ ذَاكَ قَاتِلِي، تَرَاهُ ذَلِكَ الَّذِي رَمَانِي، قَالَ أَبُو مُوسَى: فَقَصَدْتُ لَهُ فَاعْتَمَدْتُهُ فَلَحِقْتُهُ، فَلَمَّا رَآنِي وَلَّى عَنِّي ذَاهِبًا، فَاتَّبَعْتُهُ وَجَعَلْتُ أَقُولُ لَهُ: أَلَا تَسْتَحْيِي؟ أَلَسْتَ عَرَبِيًّا؟ أَلَا تَثْبُتُ؟ فَكَفَّ، فَالْتَقَيْتُ أَنَا وَهُوَ، فَاخْتَلَفْنَا أَنَا وَهُوَ ضَرْبَتَيْنِ، فَضَرَبْتُهُ بِالسَّيْفِ فَقَتَلْتُهُ، ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَى أَبِي عَامِرٍ فَقُلْتُ: إِنَّ اللهَ قَدْ قَتَلَ صَاحِبَكَ، قَالَ: فَانْزِعْ هَذَا السَّهْمَ، فَنَزَعْتُهُ فَنَزَا مِنْهُ الْمَاءُ، فَقَالَ: يَا ابْنَ أَخِي انْطَلِقْ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَقْرِئْهُ مِنِّي السَّلَامَ، وَقُلْ لَهُ: يَقُولُ لَكَ أَبُو عَامِرٍ: اسْتَغْفِرْ لِي، قَالَ: وَاسْتَعْمَلَنِي أَبُو عَامِرٍ عَلَى النَّاسِ، وَمَكَثَ يَسِيرًا ثُمَّ إِنَّهُ مَاتَ، فَلَمَّا رَجَعْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلْتُ عَلَيْهِ، وَهُوَ فِي بَيْتٍ عَلَى سَرِيرٍ مُرْمَلٍ، وَعَلَيْهِ فِرَاشٌ، وَقَدْ أَثَّرَ رِمَالُ السَّرِيرِ بِظَهْرِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَنْبَيْهِ، فَأَخْبَرْتُهُ بِخَبَرِنَا وَخَبَرِ أَبِي عَامِرٍ، وَقُلْتُ لَهُ: قَالَ: قُلْ لَهُ: يَسْتَغْفِرْ لِي، فَدَعَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَاءٍ، فَتَوَضَّأَ مِنْهُ، ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: «اللهُمَّ اغْفِرْ لِعُبَيْدٍ أَبِي عَامِرٍ» حَتَّى رَأَيْتُ بَيَاضَ إِبْطَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: «اللهُمَّ اجْعَلْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَوْقَ كَثِيرٍ مِنْ خَلْقِكَ، أَوْ مِنَ النَّاسِ» فَقُلْتُ: وَلِي، يَا رَسُولَ اللهِ فَاسْتَغْفِرْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اللهُمَّ اغْفِرْ لِعَبْدِ اللهِ بْنِ قَيْسٍ ذَنْبَهُ، وَأَدْخِلْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُدْخَلًا كَرِيمًا» قَالَ أَبُو بُرْدَةَ: إِحَدَاهُمَا لِأَبِي عَامِرٍ، وَالْأُخْرَى لِأَبِي مُوسَى

مترجم:

2498.

برید نے ابو بردہ سے اور انھوں نے اپنے والد (حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) سے روایت کی، کہا: جب نبی ﷺ غزوہ حنین سے فارغ ہوئے تو آپ ﷺ نے حضرت ابو عامر رضی اللہ تعالی عنہ کو ایک لشکر کا امیر بنا کر اوطاس کی طرف روانہ کیا، انہوں نے درید بن صمہ سے مقابلہ کیا، درید بن صمہ کو قتل کر دیا گیا اور اللہ تعالی نے اس کے ساتھیوں کو شکست دی۔ ابو موسی رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: آپ نے مجھے بھی حضرت ابو عامر رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ روانہ کیا تھا، ابو عامر رضی اللہ تعالی عنہ کو ان کے گھٹنے میں تیر لگ گیا، بنو جشم کے ایک آدمی نے انہیں وہ تیر مارا اور ان کے گھٹنے میں پیوست کر دیا، میں ان کے پاس گیا اور کہا چچا آپ کو کس نے تیر مارا؟ حضرت ابو عامر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت ابو موسی رضی اللہ تعالی عنہ کو اشارہ کر کے بتایا اور کہا: وہ میرا قاتل ہے اسے دیکھ رہے ہو، اسی نے مجھے تیر مارا، حضرت ابو موسی رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: میں نے اس شخص کا رخ کیا، اسے نظروں میں رکھا اور اس کو جا لیا، جب اس نے مجھے دیکھا تو میری طرف سے پشت پھیر کر بھاگا، میں نے اس کا پیچھا کیا اور اسے (عار دلاتے ہوئے) کہنا شروع کی: تمہیں بھاگتے ہوئے شرم نہیں آتی؟ تم عربی نہیں ہو؟ تم ڈٹ نہیں سکتے؟ وہ رک گیا تو میں نے اور اس نے دونوں نے ایک دوسرے کی طرف منہ کیا اور میں نے اور اس نے تلوار کے دو واروں کا تبادلہ کیا، میں نے اسے تلوار ماری اور قتل کر دیا، پھر میں واپس ابو عامر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آیا اور کہا: اللہ نے تمہیں نشانہ بنانے والے کو قتل کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا: اس تیر کو کھینچ کر نکال دو۔ میں نے اسے کھینچا تو اس (کے زخم والی جگہ) سے پانی پھوٹ کر بہنے لگا۔ انہوں نے کہا: بھتیجے! رسول اللہ ﷺ کے پاس جانا، انہیں میری طرف سے سلام کرنا اور عرض کرنا:  ابوعامر کہتا ہے: میرے لیے استغفار فرمائیں۔ کہا: اور ابو عامررضی اللہ تعالی عنہ نے  (اپنی جگہ) مجھے لوگوں پر عامل مقرر کر دیا۔ وہ تھوڑا عرصہ (زندہ) رہے، پھر وفات پا گئے۔ جب میں رسول اللہ ﷺ کے طرف واپس آیا تو میں آپ کے ہاں حاضر ہوا، آپ گھر میں کھجور کے بان سے بنی ہوئی ایک چارپائی پر تشریف فرماتھے اس پر بچھونا تھا (پھر بھی) اس کے بان نے رسول اللہ کی کمر اور پہلوؤں پر نشان ڈال دیے تھے۔ میں نے آپﷺ کو اپنی اور ابو عامر رضی اللہ تعالی عنہ کی خبر سنائی اور آپ سے عرض کی، انہوں نے کہا تھا: آپﷺ سے عرض کروں کہ آپﷺ میرے لیے استغفار کریں۔ رسول اللہ ﷺ نے پانی منگوایا، اس سے وضو کیا، پھر دونوں ہاتھ اٹھادیے اور دعا کی: ’’اے اللہ عبید (بن سلیم) ابو عامر کو بخش دے۔‘‘ یہاں تک کہ میں نے آپﷺ کی بغلوں کی سفیدی دیکھی، پھر آپﷺ نے فرمایا: ’’اے اللہ اسے قیامت کے دن اپنی مخلوق میں سے یا (فرمایا) لوگو ں میں سے بہت سوں پر فائق کر۔‘‘ میں نے عرض کی: اللہ کے رسولﷺ! میرے لیے بھی استغفار فرمائیں تو رسول اللہ نے فرمایا: ’’اے اللہ عبداللہ بن قیس کے گناہ بخش دے اور اسے قیامت کے دن باعزت مقام میں داخل فرما۔‘‘ ابو بردہ نے کہا: ان میں سے ایک (دعا) ابو عامر رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے تھی اور دوسری ابو موسی رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے