Muslim:
The Book of Fasting
(Chapter: Fasting on the day of Ashura')
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1130.
ہشیم نے ابو بشر سے، انھوں نے سعید بن جبیر سے اور انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے، آپ نے یہود کو یومِ عاشورہ کا روزہ رکھتے ہوئے پایا تو ان سے اس کے بارے میں پوچھا گیا؟ انھوں نے جواب دیا: یہی دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون پر غلبہ عنایت فرمایا تھا، ہم اس (دن) کی تعظیم کرتے ہوئے اس کا روزہ رکھتے ہیں اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہمیں موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تمہاری نسبت زیادہ لگاؤ ہے‘‘ اس کے بعد آپﷺ نے اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم دیا۔
تشریح:
فوائد ومسائل
اس بات کی پہلی حدیث میں یہ وضاحت موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ مکہ میں بعثت سے پہلے بھی دوسرے لوگوں کے ساتھ یومِ عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے۔ یہ دین حنیف کی بقیہ عبادات میں سے تھا۔ جب آپ ﷺ مدینہ تشریف لائےتو یہود کو بھی عاشورہ کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا، ان سے دویافت کرنے پر معلوم ہوا یہ فرعون سے موسیٰ علیہ السلام کی نجات کی دن بھی ہے۔ آپﷺ نے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ زیادہ تعلق کا واسطہ دیتے ہوئے مہاجرین اور انصار دونوں کو اس نیت سے بھی کہ یہ موسیٰ علیہ السلام کی نجات کا دن ہے تاکیداً روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ اگلے سال 2 ہجری میں رمضان کے روزے فرض ہو گئے تو یومِ عاشورہ کے روزے کو نفلی قرار دیتے ہوئے رکھنے والے کی مرضی پر چھوڑ دیا۔
صوم کا لغوی معنی رکنا ہے۔شرعاً اس سے مراد اللہ کے حکم کے مطابق اس کی رضا کی نیت سے صبح صادق سے لے کر غروب تک کھانے پینے،بیوی کے ساتھ ہمبستری کرنے کے علاوہ گناہ کے تمام کاموں سے بھی رکے رہنا ہے۔اس عبادت کے بے شمار روحانی فوائد ہیں۔سب سے نمایاں یہ ہے کہ اس کے زریعے سے انسان ہر معاملے میں،اللہ کے حکم کی پابندی سیکھتا ہے۔اس پر و اضح ہوجاتا ہے کہ حلت وحرمت کا اختیار صرف اورصرف اللہ کے پاس ہے،جس سے انسانوں کو،اللہ کے رسول ﷺ آگاہ فرماتے رہے ہیں۔کچھ چیزیں بذاتہا حرام ہیں۔کچھ کو اللہ نے ویسے تو حلال قرار دیا لیکن خاص اوقات میں ان کو حرام قراردیا۔اللہ کے بندوں کا کام،ہرحال میں اللہ کے حکم کی پابندی ہے۔
دوسرا اہم فائدہ یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشات پر قابو پانا سیکھتا ہے۔جو انسان جائز خواہشات ہی کا غلام بن جائے وہ اپنی ذات پر اپنا اختیار کھو دیتا ہے۔وہ چیزیں اوران چیزوں کے زریعے سے دوسرے لوگ اس پر قابو حاصل کرلیتے ہیں اور اسے زیادہ سے زیادہ اپنا غلام بناتے چلے جاتے ہیں۔انسان کی آزادی اپنی خواہشات پرکنٹرول سے شروع ہوتی ہے۔خواہشات پر قابوہو تو انسان کامیابی سے اپنی آزادی کی حفاظت کرسکتا ہے۔
آج کل لوگ زیادہ کھانے پینے کی وجہ سے صحت تباہ کرتے ہیں۔روزے سے اس بات کی تربیت ہوتی ہے۔کہ کھانے پینے میں اعتدال کیسے رکھاجائے اور پتہ چلتا ہے کہ اس سے کس قدرآرام اور سکون حاصل ہوتاہے۔روزے کے دوران میں انسان کی توجہ اللہ کے احکام کی پابندی پر رہتی ہے،اس لئے گناہوں سے بچنا بہ آسانی ممکن ہوجاتاہے۔انسان کو یہ اعتماد حاصل ہوجاتا ہے کہ گناہوں سے بچنا کوئی زیادہ مشکل بات نہیں۔
رمضان میں مسلم معاشرہ اجتماعی طور پر نیکی کی طرف راغب اور گناہوں سے نفور ہوتا ہے۔اس کے زریعے سے نسل نو کی اچھی تربیت اور راستے سے ہٹ جانے والوں کی واپسی میں مدد ملتی ہے۔اللہ نے بتایا ہے کہ روزے پچھلی امتوں پر بھی فرض کیے گئے تھے۔لیکن اب اس کا اہتمام امت مسلمہ کے علاوہ کسی اور امت میں موجود نہیں۔دوسری امت کے کچھ لوگ اگر روزے رکھتے ہیں تو کم اور آسان روزے رکھتے ہیں۔روزے میں ہر چیز سے پرہیز کی بجائے کھانے کی بعض اشیاء یا پینے کی بعض اشیاء سے پرہیز کیا جانا ایک خاص وقت تک سہی پانی پینے پر پابندی کو روزے کا حصہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صحیح معنی میں ضبط نفس کی تربیت نہیں ہوپاتی۔
رمضان کے مہینے میں قرآن نازل ہوا۔اللہ نے روزوں کو قرآن پرعمل کرنے کی تربیت کا ذریعہ بنایا اور اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان کی راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے کی سنت عطا فرمائی،اس طرح انسان نیند پر بھی معقول حد تک کنٹرول کرلیتا ہے۔
امام مسلمؒ نے اپنی صحیح کی کتاب الصیام میں رمضان کی فضیلت،چاند کے زریعے سے ماہ رمضان کے تعین،روزے کے اوقات کے تعین کے حوالے سے متعدد ابواب قائم کرکے صحیح احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم جمع کی ہیں۔
مسلمانوں کو اس کے تحفظ کااہتمام کرنے کے لئے اللہ نے جو سہولتیں عطا کی ہیں ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔سحری کھاناافضل ہے۔آخری وقت میں کھانی چاہیے۔غروب ہوتے ہی افطار کرلینا چاہیے۔حلال امور کے معاملے میں روزے کی پابندیاں دن تک محدود ہیں،رات کو وہ پابندیاں ختم ہوجاتی ہیں۔وصال کے روزے رکھ کر خود کو مشقت میں ڈالنے سے منع کردیاگیا ہے۔
دن میں بیوی کے ساتھ مجامعت ممنوع ہے۔سحری کا وقت ہوگیا اور جنابت سے غسل نہیں ہوسکا تو اس کے باوجود روزے کاآغاز کیا جاسکتا ہے۔اگر انسان روزے کی پابندی توڑ بیٹھے تو تو کفارے کی صورت میں بھی اس کا مداوا موجود ہے۔بلکہ کفارے میں بھی تنوع کی سہولت میسر ہے۔سفر،مرض اورعورتوں کو ایام مخصوصہ میں روزہ چھوڑدینے اوربعد میں رکھنے کی سہولت بھی عطا کی گئی ہے۔امام مسلم ؒ نے صحیح احادیث کے ذریعے سے ان معاملات پرروشنی ڈالی ہے۔ اور ان کو واضح کیا ہے۔
رمضان سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا تھا،اس کی تاریخ،اس کے متعلقہ امور اور رمضان کے روزوں کی فرضیت کے بعد اس روزے کی حثییت پر بھی احادیث پیش کی گئی ہیں۔ان ایام کا بھی بیان ہے جن میں ر وزے نہیں رکھے جاسکتے۔روزوں کی قضا کے مسائل ،حتیٰ کہ میت کے ذمے اگر روزے ہیں تو ان کی قضاء کے بارے میں بھی احادیث بیان کی گئی ہیں۔روزے کے آداب اور نفلی روزوں کے احکام اوران کے حوالے سے جو آسانیاں میسر ہیں،ان کے علاوہ روزے کے دوران میں بھول چوک کر ایساکام کرنے کی معافی کی بھی وضاحت ہے جس کی روزے کے دوران میں اجازت نہیں۔
ہشیم نے ابو بشر سے، انھوں نے سعید بن جبیر سے اور انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے، آپ نے یہود کو یومِ عاشورہ کا روزہ رکھتے ہوئے پایا تو ان سے اس کے بارے میں پوچھا گیا؟ انھوں نے جواب دیا: یہی دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون پر غلبہ عنایت فرمایا تھا، ہم اس (دن) کی تعظیم کرتے ہوئے اس کا روزہ رکھتے ہیں اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہمیں موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تمہاری نسبت زیادہ لگاؤ ہے‘‘ اس کے بعد آپﷺ نے اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم دیا۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
اس بات کی پہلی حدیث میں یہ وضاحت موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ مکہ میں بعثت سے پہلے بھی دوسرے لوگوں کے ساتھ یومِ عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے۔ یہ دین حنیف کی بقیہ عبادات میں سے تھا۔ جب آپ ﷺ مدینہ تشریف لائےتو یہود کو بھی عاشورہ کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا، ان سے دویافت کرنے پر معلوم ہوا یہ فرعون سے موسیٰ علیہ السلام کی نجات کی دن بھی ہے۔ آپﷺ نے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ زیادہ تعلق کا واسطہ دیتے ہوئے مہاجرین اور انصار دونوں کو اس نیت سے بھی کہ یہ موسیٰ علیہ السلام کی نجات کا دن ہے تاکیداً روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ اگلے سال 2 ہجری میں رمضان کے روزے فرض ہو گئے تو یومِ عاشورہ کے روزے کو نفلی قرار دیتے ہوئے رکھنے والے کی مرضی پر چھوڑ دیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپﷺ نے یہودیوں کو عاشورہ کے دن کا روزہ رکھتے ہوئے پایا تو ان سے اس کے بارے میں پوچھا گیا؟ انھوں نے جواب دیا یہ وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور بنو اسرائیل کو فرعون پر غلبہ عنایت فرمایا تھا تو ہم اس کے احترام و تعظیم کی خاطر روزہ رکھتے ہیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہم تمھارے مقابلہ میں موسیٰ علیہ السلام سے زیادہ قریب ہیں۔‘‘ اس لیے آپﷺ نے اس کے روزہ کا حکم دیا۔
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ربیع الاول مدینہ تشریف لائے تھے اور 2 ہجری کے رمضان کی فرضیت سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو محرم میں روزہ رکھتے ہوئے پایا تو آپ نے ان سے پوچھا اس طرح عاشورہ کے دن کی تاکیدی تلقین یا امر ایک ہی سال دیا گیا کیونکہ آپ کو اس کا پتہ مدینہ آنے کے بعد چلا، آپﷺ قریش کے روزہ رکھنے کی وجہ سےروزہ رکھتے تھے اور اگر یہ بات تسلیم کر لیا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ آمد کے موقع پر یہودی قبائل شمسی سال کے اعتبار سے روزہ رکھے ہوئے تھے تو پھر آپ نے تو دس (10) محرم کا ہی روزہ رکھنے کا حکم دیا اور وہ رمضان کی فرضیت سے پہلے ایک ہی آیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ibn Abbas (RA) (Allah be pleased with both of them) reported that when Allah's Messenger (ﷺ) came to Madinah, he found the Jews observing the fast on the day of Ashura. They (the Jews) were asked about it and they said: It is the day on which Allah granted victory to Moses (ؑ) and (his people) Bani Isra'il over the Pharaoh and we observe fast out of gratitude to Him. Upon this the Apostle of Allah (ﷺ) said: We have a closer connection with Moses (ؑ) than you have, and he commanded to observe fast on this day.