باب: مہمان کی عزت افزائی اور اسے اپنی ذات پر ترجیح دینا
)
Muslim:
The Book of Drinks
(Chapter: Honoring guests and the virtue of showing preference to one's guest)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2056.
ابوعثمان نے حضرت عبدالرحمان بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی، کہا: سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سو تیس آدمی تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا کسی پاس کھانا ہے؟ ایک شخص کے پاس ایک صاع اناج نکلا یا تھوڑا کم یا زیادہ۔ پھر وہ سب گوندھا گیا۔ پھر ایک مشرک آیا، جس کے بال بکھرے ہوئے تھے، لمبا، بکریاں لے کر ہانکتا ہوا، رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’تو (بکری) بیچتا ہے یا ہدیہ دیتا ہے؟‘‘ اس نے کہا کہ نہیں بیچتا ہوں۔ آپ ﷺ نے اس سے ایک بکری خریدی تو اس کا گوشت تیار کیا گیا اور آپ ﷺ نے کلیجی، گردے، دل وغیرہ کو بھوننے کا حکم دیا، (حضرت عبدالرحمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا: اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ نے ایک سوتیس آدمیوں میں سے ہر ایک شخص کو اس کی کلیجی وغیرہ کا ایک ٹکڑا دیا، جو شخص موجود تھا، اس کو دے دیا اور جو موجود نہیں تھا، اسکے لئے رکھ لیا۔ (عبدالرحمان بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے) کہا: آپﷺ نے (کھانے کے لئے) دو بڑے پیالے بنائے اور ہم سب نے ان دو پیالوں میں سے کھایا اور سیر ہوگئے، دونوں پیالوں میں کھانا پھر بھی بچ گیا تو میں نے اس کو اونٹ پر لاد لیا یا جس طرح انھوں نے کہا۔
کتاب الاشربہ اپنےمعانی کےاعتبارسےایک وسیع المطالب کتاب ہے۔ مشروبات میں حلال وحرام مشروبات کی تفصیل،شراب کےنقصانات ،وہ حالات جن میں شراب کوحتمی طورپرحرام قراردیاگیا،صحابہ کاجذبہ اطاعت مختلف چیزوں سےبننےوالی شرابوں کی مشرکہ صفت اورمضرت،اس سےمکمل اجتناب کےلیے مشروب سازی اوربرتنوں تک کےحوالےسےاحتیاطی احکام،حلال مشروبات کےحوالےسےصحت کےلیے ضروری احتیاطی تدابیر،پینےاور کھانےدونوں کےمعاشرتی اورروحانی آداب،حلت وحرمت کےحوالےسےاوہام پرمبنی تصورات،شخصی ناپسندیدگی اورحرمت،کھانےپینےمیں موسات اوربرکت،اس کتاب میں ان تمام موضوعات کےحوالےسےرہنمائی کےلیے ارشادات نبویہ پیش کیےگئےہیں۔
کتاب کاآغازاس افسوسناک واقعےسےکیاگیاہےجوحضرت حمزہکی شراب نوشی کی بناپرحضرت علیاورخود رسالت مآبﷺکوپیش آیا۔ حضرت حمزہ شراب نوشی کی ایک مجلس میں شریک ہوئے،گانےوالی نے شراب کےنتیجےمیں پیداہونےوالی خودفریبی اوراپنی عظمت وسخاوت کےانتہائی مبالغہ آمیزاحساس کومزیداجاگرکیا اورباہربیٹھیں حضرت علیکی دواونٹنیوں کے،جوان کی کل متاع تھیں،کباب کھلانےکی تان اڑائی۔شراب اپنےپینےوالوں کےاحساس عظمت کواتنابڑھادیتی ہےکہ عقل ودانش کی جملہ قیودٹوٹ جاتی ہیں۔ حضرت حمزہ نےگانےوالی کےالفاظ کےعین مطابق اپنی تلواراٹھائی اوران اونٹنیوں کی کوہانیں کاٹیں، پیٹ چاک کیے،کلیجےنکالے اورکباب بنانےوالوں کےحوالےکردیے۔ حضرت علیشدیدصدمےکےعالم میں رسول اللہﷺکےپاس آئے، ان کی بات سن کرآپ ﷺچل کرحمزہکےپاس توپتہ چلاکہ حضرت حمزہشراب کےنشےمیں پہچان اورتمیزتک کھوچکےہیں۔ شراب کی حرمت کےتدریجی مراحل کاآغازہوچکاتھا۔ یہ واقعہ پورےمدینہ والوں کی آنکھیں کھول دینےاورشراب کےشدیدنقصان کوپوری طرح واضح کرنےکےلیے کافی تھا۔ اس کےنتیجےمیں شراب کی حتمی حرمت کااعلان کردیاگیا۔ یہ ایمان لانےوالوں کےلیے ایک سخت امتحان تھا۔ یہ رسول اللہﷺکی بےمثال تربیت اوراس کےنتیجےمیں حاصل ہونےوالی ایمان کی مضبوطی تھی کہ شراب کی حرمت کےاعلان کےساتھ ہی شراب چھوڑدی گئی،مٹکےتوڑدیےگئےاورشراب کوگلیوں میں بہادیاگیا۔ یہ اہل ایمان کی عظیم الشان کامیابی تھی۔
اللہ کی رہنمائی کابنیادی مقصدیہ ہےکہ انسان اپنےخالق اورحقیقی مالک کوپہچانے،اپنےبرےبھلےمیں تمیزکرے،اس کےازلی دشمن شیطان نےاس کوتباہ کرنےکےلیےجوفریب کےجال پھیلارکھےہیں ان کےدھوکےمیں نہ آئے، اپنی حقیقی کامیابی کےمقصدسےغافل نہ ہو۔ شراب اس سےپہچان اورتمیزچھین کراسےاپنےسب سےبڑےدشمن کا شکاربننےکےلیے تیارکردیتی ہے۔ یہ شیطان کاسب سےخوفناک پھنداہےجس کےذریعےسےانسان کی تباہی یقینی ہوجاتی ہے،اس لیے شراب چاہےجس چیزکی بنی ہوئی ہواورجس نام سےہواس کوپوری سختی سےحرام کردیاگیااور اس سےاجتناب کویقینی بنانےکےلیے ان ذرائع کوبھی مسدودکیاگیاجوانسان کواس تک لےجاسکتےہیں۔
اس زمانےمیں حجازکےعلاقےمیں شراب’’نخلہ‘‘(کھجورکےدرخت)اور’’کرمہ‘‘(انگورکی بیل)کےپھلوں سے بنتی تھی۔ شراب بنانےکےلیے نیم پختہ کھجوراورتازہ کھجورکویانیم پختہ کھجوراورخشک کھجورکویاکھجوراورکشمش کوملاکرپانی میں اس کارس نکالاجاتاتھا، پھراسےرکھاجاتاحتی کہ اس میں تخمیرکاعمل ہوتااوروہ شراب بن جاتی۔ مختلف قسم کےکچے،پکےتازہ اورخشک پھلوں کارس ملانےسےاس میں تندی آجاتی اورجلدتخمیرکاعمل شروع ہوجاتا۔ یمن میں شہدکےشربت سےشراب بنائی جاتی تھی جسے’’بتع‘‘کہتےتھے۔ جوسےبھی شراب بنائی جاتی تھی،اسے’’مزر‘‘کہتے تھے۔ رسول اللہﷺنےاس سےقطع نظرکہ وہ کسی چیزسےبنی ہوئی ہیں،تمام شرابوں کوحرام قراردیابلکہ صریح الفاظ میں ہرقسم کی نشہ آورچیزکی حرمت کااعلان فرمایادیا۔ قاعدہ کلیہ یہ بیان فرمایا(كُلَّ مُسْكِرٍ خَمْرٌ وَكُلَّ مُسْكِرٍحَرَامٌ)’’ہرنشہ آورچیزخمر(شراب)ہےاورہرنشہ آورچیزحرام ہے۔‘‘(حدیث:5218)
کھجورکوپانی میں ملاکراس کابنایاہواشربت’’نبیذ‘‘عربوں کوبہت مرغوب تھالیکن اس شربت پرتھوڑاساوقت گزرجاتا توعمل تخمیرسےیہ نشہ آوربن جاتا۔ اگراسےمسامداربرتنوں میں بنایاجاتاتواستعمال کےبعد،دھونےکےباوجودان برتنوں کےمساموں میں اس کےاجزاءرہ جاتےاوران کاخمیربن جاتا۔ ان برتنوں میں دوبارہ رس ڈالنےکےبعدتخمیر کاعمل عمل فوراشروع ہوجاتااورنبیذنشہ آورہونےلگتی۔ رسول اللہﷺنےاللہ نےحکم سےاپنی امت کواس غلاظت سےمکمل طورپرمحفوظ رکھنےکےلیے یہ حکم دیاکہ ایک ہی قسم کےکچےاورپکےبرتنوں کااستعمال ممنوع قراردیاجن میں شراب بنائی جاتی تھی۔ اگرشراب نہ بنائی گئی ہوتوبھی مسامداربرتنوں میں مشروب بنانےکی ممانعت فرمادی۔ ان برتنوں میں سوکھےکدوکوکھوکھلاکرکےبنائےہوئےبرتن،لکڑی کےبرتن،روغن قارملےہوئےبرتن اورمٹی کےگھڑےوغیرہ شامل تھے۔ مشکیزوں میں نبیذبنانےکی اجازت دی کیونکہ ان میں تخمیرکاعمل جلدشروع نہیں ہوتا۔ برتنوں کےحوالےسےیہ پابندی کچھ عرصہ برقراررہی،جب یقین ہوگیاکہ شراب بنانےوالےپرانے برتن ختم ہوگئےیاان کےاندرسے’’خمیر‘‘کےاجزاءمکمل طورپرزائل ہوگئےتوان کےعام استعمال کی اجازت مرحمت فرمادی۔ یہ تاکیدی حکم باقی رہاکہ کسی حلال مشروب(نبیذ،پھلوں کےرس وغیرہ)کواسی وقت تک استعمال کرناجائزہےجب تک ان میں تخمیرکاعمل شروع ہونےکاامکان ہی پیدانہ ہواہو۔ اورمسامداربرتنوں ،مثلا:روغن قارملےہوئےبرتنوں میں نبیذبنانےکی پابندی بھی برقراررہی۔ (حدیث:5210)
اسلام نےمضرصحت نشہ آورمشروبات کی ممانعت کےساتھ صحت بخش مشروبات خصوصادودھ پینےکی حوصلہ افزائی بھی کی ہے۔ صحت کےحوالےسےیہ ہدایت بھی دی کہ کھانےپینےکی تمام اشیاءکی ہرصورت میں ڈھک کررکھاجائے۔ کھانےپینےکی اشیاءاللہ تعالیٰ کی قدرت،رحمت اورلطف وکرم کاخاص کرشمہ ہیں۔ اللہ نےانہیں اس طرح پیدافرمایاہےکہ یہ انسان کےجسم کوصحت اورتوانائی بخشتی ہیں اوراس کےساتھ مزےسےبھرپورہیں۔ یہ انسان کےکام ودہن کولذت بخشتی ہیں اورپھرکےحکم سےاس کےجسم کاحصہ بن جاتی ہیں۔ رسول اللہﷺ نےاپنی امت کواس بات کی تعلیم دی ہےکہ اگریہ اللہ کےحکم کےمطابق،انہیں اس کی نعمت سمجھتےہوئے،پاکیزگی کااہتمام کرتےہوئےاورا س کانام لےکراستعمال کریں تواللہ تعالیٰ ان میں برکت شامل کردیتاہے۔ اس عظیم روحانی پہلوپرصحیح مسلم کےکتاب الاشربۃ میں تفصیل سےروشنی ڈالی گئی ہے۔ بےبرکتی کےاسباب واضح کیےگئےہیں۔ پاکیزگی کےحوالےسےدایاں ہاتھ استعمال کرنے،برتن میں سانس نہ لینے،برتنوں کوگندانہ کرنے،اطمینان اورآرام سےبیٹھ کرکھانےپینےاورپانی وغیرہ پیتےہوئےبارباربرتن سےمنہ ہٹاکرسانس لینےاورکانام لےکرکھانےپینےکی تعلیم دی گئی ہے۔ ا س بات کی طرف توجہ دلائی گئی ہےکہ کھانےکی ادنیٰ ترین مقداربھی ضائع نہیں کرنی چاہیے،کھانےکابرتن اچھی طرح صاف کرناچاہیےاورانگلیاں چاٹ لینی چاہئیں ،اس میں برکت ہے۔ مغرب زدہ متکبرین انگلیاں چاٹنےکوبراسمجھتےرہے۔ اب جدیدسائنس نےہی،جسےیہ لوگ علم کی انتہاسمجھتےہیں،ان کی سوچ کی غلطی واضح کرتےہوئےیہ شہادت پیش کردی ہےکہ انگلیوں سےکھاناکھاتےہوئےان کی سطح پرایسامادہ پیداہوجاتاہےجوکھانےکےاندرمضرصحت جراثیم کوختم کردیتاہے۔ انگلیاں چاٹ لیناانتہائی صحت بخش طریقہ ہے۔ اس بات کی بھی تعلیم دی گئی کہ صاف دھلےہوئےدائیں ہاتھ سےکھاناچاہیے۔ اوراپنےآگےسےکھاناچاہیے۔ انگوٹھےکےساتھ دوانگلیاں استعمال کرنی چاہئیں ۔کھجوروغیرہ کھاکراس کی گٹھلیاں دوبارہ اسی برتن میں نہیں ڈالنی چاہئیں کسی کھانےمیں عیب جوئی نہیں کرنی چاہیےاورحلال چیزوں میں بھی نفیس ترین اوربوسےپاک اشیاءکوترجیح دینی چاہیے۔
اس سےآگےبڑھ کریہ واضح کیاگیاہےکہ مذکورہ بالاتمام ہدایات کی پابندی کےساتھ اگراللہ کی رضاکےلیے کھانےمیں مواسات،زیادہ سےزیادہ لوگوں کوشریک کرنے،خودپردوسروں کوترجیح دینےکاارادہ اوراس پرعمل کیاجائےتوکھانےمیں ایسی برکت پیداہوجاتی ہےکہ انسانی عقل حیران رہ جاتی ہے۔ رسول اللہﷺتومواسات سےبڑھ کرامت کےتمام افرادکےلیے مجسم محبت خیرخواہی اورلطف وکرم کاسرچشمہ تھے۔ آپ کی برکت سےدوچارلوگوں کاکھانایاپیناتوسیکڑوں بلکہ ہزاروں افرادکوسیرکردیتاتھا،پھربھی بچارہتاتھا،عام مسلمان بھی جب دوسرےبھائیوں کواپنےساتھ شریک کریں توایک آدمی کاکھاناکم ازکم دوکواوردوآدمیوں کاکھاناچارکوبہ آسانی کفایت کرےگا۔ مواسات کاجذبہ اوراخلاص جس قدربڑھتاجائےگا، برکت میں اسی قدراضافہ ہوجائےگا۔
حضرت ابوبکرصدیقاس بات پرسخت پریشان ہوئےاورانہیں غصہ آیاکہ ان کی ناگریزغیرحاضری کےدوران میں ان کےمہمان بہت دیرتک بھوکےرہے۔ اس میں اگرچہ مہمانوں کےاپنےاصرارہی کادخل تھالیکن حضرت ابوبکرکی پریشانی اورغصہ اللہ کی رضاکےلیےتھا۔ اپنےمہمانوں کی شدیدخیرخواہی کاجذبہ بھی اللہ کی رضاکےلیے تھا۔ یہ صرف اورصرف اللہ کےلیے خیرخواہی اوراللہ کےلیے غصےکامظاہرہ تھا۔ اس بناپراللہ نےان کےتھوڑےسےکھانےمیں اتنی برکت ڈال دی کہ مہمانوں اورگھروالوں کےعلاوہ وہ اللہ کی راہ میں جہادکےلیے جانےوالوں کےبھی کام آیا۔
ابوعثمان نے حضرت عبدالرحمان بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی، کہا: سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سو تیس آدمی تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا کسی پاس کھانا ہے؟ ایک شخص کے پاس ایک صاع اناج نکلا یا تھوڑا کم یا زیادہ۔ پھر وہ سب گوندھا گیا۔ پھر ایک مشرک آیا، جس کے بال بکھرے ہوئے تھے، لمبا، بکریاں لے کر ہانکتا ہوا، رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’تو (بکری) بیچتا ہے یا ہدیہ دیتا ہے؟‘‘ اس نے کہا کہ نہیں بیچتا ہوں۔ آپ ﷺ نے اس سے ایک بکری خریدی تو اس کا گوشت تیار کیا گیا اور آپ ﷺ نے کلیجی، گردے، دل وغیرہ کو بھوننے کا حکم دیا، (حضرت عبدالرحمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا: اللہ کی قسم! رسول اللہ ﷺ نے ایک سوتیس آدمیوں میں سے ہر ایک شخص کو اس کی کلیجی وغیرہ کا ایک ٹکڑا دیا، جو شخص موجود تھا، اس کو دے دیا اور جو موجود نہیں تھا، اسکے لئے رکھ لیا۔ (عبدالرحمان بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے) کہا: آپﷺ نے (کھانے کے لئے) دو بڑے پیالے بنائے اور ہم سب نے ان دو پیالوں میں سے کھایا اور سیر ہوگئے، دونوں پیالوں میں کھانا پھر بھی بچ گیا تو میں نے اس کو اونٹ پر لاد لیا یا جس طرح انھوں نے کہا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم ایک سو تیس افراد تھے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’کیا تم میں سے کسی شخص کے پاس کھانا ہے؟‘‘ تو ایک آدمی کے پاس ایک صاع یا اس کے قریب آٹا نکلا، اسے گوندھا گیا، پھر ایک مشرک آدمی پراگندہ بال یا لمبا تڑنگا، بکریاں ہانکتے ہوئے، آیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بیچتے ہو یا عطیہ ہے یا فرمایا ہبہ ہے؟‘‘ اس نے کہا: نہیں، بلکہ بیچوں گا، آپ نے اس سے ایک بکری خرید لی، اسے تیار کیا گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کلیجی کو بھوننے کا حکم دیا اور اللہ کی قسم! ایک سو تیس آدمیوں میں سے ہر ایک کے لیے آپ نے اس کلیجی سے ایک ٹکڑا کاٹا، اگر موجود تھا تو اس کو دے دیا اور اگر غیر موجود تھا تو اس کے لیے رکھ لیا گیا اور بکری کے گوشت کو دو پیالوں میں ڈالا، ان سے سب نے کھایا اور ہم سیر ہو گئے اور دونوں پیالوں میں کھانا بچ گیا، اسے میں نے اونٹ پر رکھ لیا، یا جو بات انہوں نے کہی۔
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1) مشحان: پراگندہ اور بکھرے ہوئے بالوں والا، دراز قد جیسا کہ راوی نے تفسیر کی ہے۔
(2) حزة: ٹکڑا، حصہ۔
فوائد ومسائل
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ مشرک کے ساتھ خرید و فروخت کرنا جائز ہے اور اس سے تحفہ بھی قبول کیا جا سکتا ہے، اور اس سے آپ کے معجزہ کا اظہار ہو رہا ہے کہ آپ نے ایک بکری کی کلیجی کو ایک سو تیس آدمیوں میں تقسیم فرمایا اور وہ سب ایک بکری کے گوشت سے سیر ہو گئے اور کھانا بچ بھی گیا، جبکہ آٹا صرف ایک صاع (ڈھائی کلو یا بقول احناف چار کلو) تھا، جس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کھانا اکٹھے کھانا باعث برکت ہے، کیونکہ اتفاق و اتحاد میں برکت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'Abdul Rahman bin Abu Bakr (RA) reported: We were one hundred and thirty (persons) with Allah's Apostle (ﷺ) . Allah's Apostle (ﷺ) said: Does any one of you possess food? There was a person with (us) who had a sa' of flour or something about that, and it was kneaded. Then a tall polytheist with dishevelled hair came driving his flock of sheep. Thereupon Allah's Apostle (ﷺ) said: Would you like to sell it (any one of these goats) or offer it as a gift or a present? He said: No, (I am not prepared to offer as a gift), but I would sell it. He (the Holy Prophet) bought a sheep from him, and it was slaughtered and its meat was prepared, and Allah's Messenger (ﷺ) commanded that its liver should be roasted. He (the narrator) said: By Allah, none among one hundred and thirty persons was left whom Allah's Messenger (ﷺ) had not given a part out of her liver; if anyone was present he gave it to him. but if he was absent it was set aside for him. And he (the Holy Prophet) filled two bowls (one with soup and the other with mutton) and we all ate out of them to our hearts' content, but (still) some part was (left) in (those) two bowls, and I placed it on the camel- (or words to the same effect).