باب: جو شخص اپنی جائز جگہ پر پہلے سے بیٹھا ہوا ہے اسے اس کی جگہ سے اٹھا نا حرام ہے
)
Muslim:
The Book of Greetings
(Chapter: The Prohibition Of Making A Man Get Up From A Place That He Reached First)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
2177.
لیث نے نا فع سے انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے اور انھوں نے نبی ﷺ سے روایت کی کہ آپﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کو ئی شخص کسی دوسرے کو اس کی جگہ سے نہ اٹھا ئے کہ پھر وہاں (خود ) بیٹھ جائے‘‘
اسلامی سلامتی کادین ہے۔ صرف انسان کےلیے نہیں بلکہ تمام مخلوقات کی سلامتی سکھاتاہے۔ ہرمسلمان کوسکھایاگیاہےکہ دنیاکاہروہ انسان جواللہ کاباغی نہیں اوردوسرےانسان کی سلامتی کاقائل ہےوہ صرف اسےسلامتی کایقین ہی نہ دلائےبلکہ سلامتی کی دعابھی دے۔ پہلافقرہ جوکوئی مسلمان کوکہتاہےوہ السلام علیکم ہے۔ وہ صرف اپنےمخاطب کوسلامتی کاپیغام اورسلامتی کی دعانہیں دیتابلکہ اس کےتمام ساتھیوں کوبھی اس میں شامل کرتاہے۔ قرآن مجیدنےمسلمانوں کےدرمیان سلامتی کی خواہش کےاظہاراوردعاکولازمی قراردیاہے۔ اسلام کونہ ماننےوالوں کوبھی سلام کہاجاتاتھالیکن جب انہوں نےثابت کردیاکہ وہ مسلمان بلکہ خوداللہ کےرسول اللہﷺکےلیے بھی سلامتی کےبجائےچالاکی سےہلاکت کی بددعادیتےہیں تویہ طریقہ اپنانےکاحکم دیاگیاکہ غیرمسلم اگرسلام کہیں توجواب میں سلام کہاجائےاوروہ اگروہ سام علیکم (آپ پرموت ہو،یااس جیسےاورجملے)کہیں توبھی ترکی بہ ترکی جواب دینےکےبجائےصرف علیکم کہنےپراکتفاکیاجائے۔ غیرمسلموں کےساتھ پرامن بقائےباہمی مسلمانوں کاوتیرہ ہے۔ جوسلامتی کےباہمی عہدکوتوڑدےاوردرپےآزادہوجائے تواس کی چیرہ دستیوں سےدفاع ضروری ہے۔
زمین پربسنےوالی اللہ کی دوسری مخلوقات کی سلامتی کوبھی یقینی بنانےکاحکم دیاگیاہے،البتہ جوموذی جانورانسانی آبادیوں میں گھس کرانسانوں اورانسان کےزیرحفاظت دوسرےچوپایوں کےلیے ضررسانی یاہلاکت کاباعث بنیں ان سےنجات حاصل کرنےکی اجازت دی گئی۔ ایسےموذی جانوروں میں بڑےاورچھوٹےسب طرح کےجانورشامل ہیں۔ اگرکوئی جانورموذی سمجھاجاتاہےلیکن وہ بھی عرصہ درازسےانسانی آبادی میں بس رہاہےتواپنےعمل سےاسےبھی سلامتی کےساتھ وہاں سےجانےکاپیغام دیناچاہیے،اگرپھربھی نہ جائےتواس سےچھٹکاراپانےکی اجازت ہے،ورنہ انسانی آبادی میں اپنی موجودگی سےغلط فائدہ اٹھاکروہ کل کلاں ہلاکت کاموجب بنےگا۔
سلامتی کےحوالےسےمسلمانوں کونہایت عمدہ آداب سکھائےگئےہیں۔ اجازت کےبغیرکسی کےگھرمیں داخل نہ ہونا،عورتیں ضروری کاموں سےباہرجائیں توان کےلیے راستوں کومحفوظ بنانااوربوقت ضرورت ان کی مددکرنا،معاشرےخاندانوں،خصوصاخواتین کی سلامتی کےتحفظ کےلیے کسی اجنبی خاتون کےساتھ خلوت میں نہ رہنااوراگرمحرم خاتون ساتھ ہےتوضرورت محسوس ہونےپراس کےساتھ اپنےرشتےکی وضاحت کردینا ضروری ہے۔ سلامتی کےلیے گھروں اورمجلسوں کی سلامتی ضروری ہے۔ مجلسوں میں مساوات،ایک دوسرےکےحقوق کےتحفظ اوراہل مجلس میں سےہرایک کےآرام کاخیال رکھنےسےمجلسوں کی سلامتی کویقینی بنایاجاسکتاہے،گھروں میں وہ لوگ داخل نہ ہوں جوفتنہ انگیزی کرسکتےہیں۔ دوآمیوں کی سرگوشی تک سےپرہیز اورضرورت کےوقت دوسروں کی مدداوران کےمسائل حل کرنےسےسب لوگوں کےدل میں سلامتی کااحساس مضبوط ہوتاہے۔
سلامتی کےمتعلق ان تمام امورکےبارےمیں رسول اللہﷺکےفرامین بیان کرنےکےبعدامام مسلم نےصحت سےمتعلق امورکوبیان کیاہے۔ سب سےپہلےان بیماریوں کےحوالےسےاحادیث لائی گئی ہیں جن کےاسباب کاکھوج لگاناعام طبیب کےلیےناممکن یاکم ازکم مشکل ہوتاہے۔ ان میں جادو،نظربداورزہرخورانی وغیرہ شامل ہیں۔ ان کےعلاج کےلیے مختلف تدابیربتائی گئی ہیں جن میں دم کرنااوردعاکرناشامل ہیں، پھرمختلف بیماریوں کےعلاج کےلیے ان مناسب طریقوں کاذکرہےجورسول اللہﷺکےزمانےمیں رائج تھے۔ ان میں سےکچھ طریقوں کورسول اللہﷺنےپسندفرمایا،کچھ کوناپسندکیا۔ یہ بھی بتایاگیاکہ آپ پسندفرماتےہیں کہ بیمارکودی جانےوالی دوائیں اورطریقہ علاج تکلیف دہ نہ ہواورغذاپسندیدہ اورعمدہ ہونی چاہیے۔ اس کےبعدمختلف وباؤں کےحوالےسےرسول اللہﷺکی ہدایات بیان کی گئی ہیں جن کےذریعےسےزیادہ سےزیادہ جانوں کاتحفظ کیاجاسکتاہے،بیمارہونےوالوں کی تیمارداری کویقینی بنانےکی ہدایات ہیں، اس کےبعدسلامتی کےحوالے سےمختلف اوہام کاذکرہےاورآخرمیں موذی جانوروں کےبارےمیں ہدایات ہیں اورعمومی طورپرہرجاندارکے ساتھ رحم دلی کاسلوک کرنےکی تلقین ہے۔
لیث نے نا فع سے انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے اور انھوں نے نبی ﷺ سے روایت کی کہ آپﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کو ئی شخص کسی دوسرے کو اس کی جگہ سے نہ اٹھا ئے کہ پھر وہاں (خود ) بیٹھ جائے‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کوئی آدمی کسی دوسرے آدمی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر، اس کی جگہ میں نہ بیٹھے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر انسان سب کی مشترکہ جگہ میں آ کر پہلے بیٹھ جاتا ہے تو اس کو وہاں سے اٹھانا اس کے جذبات و احساسات کو ٹھیس پہنچانا ہے، اس لیے یہ جائز نہیں ہے، لیکن اگر مفاد عامہ کی کوئی جگہ ایسی ہے جس کے بارے میں معلوم ہے کہ فلاں آدمی اس جگہ عام طور پر بیٹھتا ہے، مثلا مسجد میں ایک جگہ بیٹھ کر کوئی عالم درس و تدریس کرتا ہے یا وعظ کرتا ہے یا فتویٰ دیتا ہے، یا ایک جگہ کوئی اپنی ریڑھی لگاتا ہے تو پھر کسی دوسرے کو اس جگہ نہیں بیٹھنا چاہیے، اگر کوئی ایسا کرے گا تو اس کو وہاں سے اٹھایا جا سکے گا، صحیح موقف یہی ہے، اگرچہ احناف کے نزدیک چونکہ یہ جگہ کسی کی ملکیت میں نہیں ہو سکتی، اس لیے جو بھی پہلے آئے گا، وہی اس جگہ بیٹھے گا، عام طور پر پہلے آ کر بیٹھنے والا اگر کسی دن پہلے نہ آئے تو وہ پہلے آنے والے کو اٹھا نہیں سکے گا۔ ظاہر ہے یہ اخلاق اور مروت کے منافی ہے، اگرچہ قانونی اور اصولی رو سے اس کی گنجائش ہے، لیکن یہ عرف اور رواج کے منافی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ibn 'Umar reported Allah's Messenger (ﷺ) having said: None of you should make another one stand in the meeting and then occupy his place.