باب: رات کے قیام اور دیگر اعمال میں سے ان اعمال کی فضیلت جن پرہمیشگی ہو
)
Muslim:
The Book of Prayer - Travellers
(Chapter: The virtue of a deed that is done persistently, whether it be Qiyam al-Lail or anything else. The command to be moderate in worship, which means adopting what one can persist in. The command to the one who gets tired or weary when praying to stop until that feeling passes)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
782.
سعید بن ابی سعید نے ابو سلمہ (بن عبد الرحمان بن عوف) سے انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کیا کہ انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ کی ایک چٹائی تھی آپﷺ رات کو اس سے حجرہ بنا لیتے اور اس میں نماز پڑھتے تو لوگوں نے بھی آپﷺ کی اقتدا میں نماز پڑھنی شروع کر دی آپﷺ دن کے وقت اسے بچھا لیتے تھے ایک رات لو گ کثرت کے ساتھ جمع ہو گئے تو آپﷺ نے فر یا: ’’لوگو! اتنے اعمال کی پابندی کرو جتنے اعمال کی تم میں طاقت ہے کیونکہ (اس وقت تک) اللہ تعا لیٰ (اجرو ثواب دینے سے) نہیں اکتاتا حتیٰ کہ تم خود اکتا جاؤ اور یقیناً اللہ کے نزدیک زیادہ محبوب عمل وہی ہے جس پر ہمیشگی اختیار کی جا ئے چاہے وہ کم ہو۔‘‘ اور رسول اللہ ﷺ کے گھر والے جب کو ئی عمل کرتے تو اسے ہمیشہ بر قرار رکھتے۔
صحیح مسلم کی کتابوں اور ابواب کے عنوان امام مسلمؒ کے اپنے نہیں۔انہوں نے سنن کی ایک عمدہ ترتیب سے احادیث بیان کی ہیں،کتابوں اور ابواب کی تقسیم بعد میں کی گئی فرض نمازوں کے متعدد مسائل پر احادیث لانے کے بعد یہاں امام مسلمؒ نے سفر کی نماز اور متعلقہ مسائل ،مثلاً ،قصر،اور سفر کے علاوہ نمازیں جمع کرنے ،سفر کے دوران میں نوافل اور دیگر سہولتوں کے بارے میں احادیث لائے ہیں۔امام نوویؒ نے یہاں اس حوالے سے کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا کا عنوان باندھ دیا ہے۔ان مسائل کے بعد امام مسلم ؒ نے امام کی اقتداء اور اس کے بعد نفل نمازوں کے حوالے سے احادیث بیان کی ہیں۔آخر میں بڑا حصہ رات کےنوافل۔(تہجد) سے متعلق مسائل کے لئے وقف کیا ہے۔ان سب کے عنوان ابواب کی صورت میں ہیں۔ا س سے پتہ چلتا ہے کہ کتاب صلااۃ المسافرین وقصرھا مستقل کتاب نہیں بلکہ ذیلی کتاب ہے۔اصل کتاب صلاۃ ہی ہے جو اس ذیلی کتاب ہے کے ختم ہونے کے بہت بعد اختتام پزیر ہوتی ہے۔یہ وجہ ہے کہ بعض متاخرین نے اپنی شروح میں اس زیلی کتاب کو اصل کتاب الصلاۃ میں ہی ضم کردیا ہے۔
کتاب الصلاۃ کے اس حصے میں ان سہولتوں کا ذکر ہے۔جو اللہ کی طرف سے پہلے حالت جنگ میں عطا کی گئیں اور بعد میں ان کو تمام مسافروں کےلئے تمام کردیا گیا۔تحیۃ المسجد،چاشت کی نماز ،فرض نمازوں کے ساتھ ادا کئے جانے والے نوافل کے علاوہ رات کی نماز میں ر ب تعالیٰ کے ساتھ مناجات کی لذتوں،ان گھڑیوں میں مناجات کرنے والے بندوں کے لئے اللہ کے قرب اور اس کی بے پناہ رحمت ومغفرت کے دروازے کھل جانے اور رسول اللہ ﷺ کی خوبصورت دعاؤں کا روح پرورتذکرہ،پڑھنے والے کے ایمان میں اضافہ کردیتا ہے۔
سعید بن ابی سعید نے ابو سلمہ (بن عبد الرحمان بن عوف) سے انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کیا کہ انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ کی ایک چٹائی تھی آپﷺ رات کو اس سے حجرہ بنا لیتے اور اس میں نماز پڑھتے تو لوگوں نے بھی آپﷺ کی اقتدا میں نماز پڑھنی شروع کر دی آپﷺ دن کے وقت اسے بچھا لیتے تھے ایک رات لو گ کثرت کے ساتھ جمع ہو گئے تو آپﷺ نے فر یا: ’’لوگو! اتنے اعمال کی پابندی کرو جتنے اعمال کی تم میں طاقت ہے کیونکہ (اس وقت تک) اللہ تعا لیٰ (اجرو ثواب دینے سے) نہیں اکتاتا حتیٰ کہ تم خود اکتا جاؤ اور یقیناً اللہ کے نزدیک زیادہ محبوب عمل وہی ہے جس پر ہمیشگی اختیار کی جا ئے چاہے وہ کم ہو۔‘‘ اور رسول اللہ ﷺ کے گھر والے جب کو ئی عمل کرتے تو اسے ہمیشہ بر قرار رکھتے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک چٹائی تھی اور آپﷺ اس کو رات کو حجرہ بنا کر اس میں نماز پڑھتے تو صحابہ کرام بھی آپﷺ کی اقتدا میں نماز پڑھنے لگے اور آپﷺ دن کو اس کو بچھا لیتے تھے، ایک رات لو گ کثرت کے ساتھ جمع ہو گئے تو آپﷺ نے فرما یا: ’’اے لوگو! اتنے اعمال کی پابندی کرو، جتنے کی ع تمہیں قدرت حاصل ہے کیونکہ اللہ تعا لیٰ (اجرو ثواب دینے سے) نہیں اکتائے گا۔ تم ہی (عمل سے) اکتاؤ گے، اور اللہ کے نزدیک محبوب عمل وہ ہے جس پردوام اور ہمیشگی کی جا ئے، اگرچہ وہ تھوڑا ہی ہو۔‘‘ اور آلِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا رویہ یہی تھا جب وہ کوئی عمل کرتے اس کو ہمیشہ بر قرار رکھتے۔
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1) ثَابُوْا: لوگ جمع ہو گئے۔ (2) مَاتُطِيْقُوْنَ: جس کی طاقت رکھتے ہو۔ (3) فَإِنَّ اللهَ لاَ يَمَلُّ حَتّٰي تَمَلُّوْا: اللہ تعالیٰ بدلہ و جزا دینے سے نہیں اکتائے گا، تم ہی عمل کرنے سے اکتاؤ گے، عربی محاورہ ہے۔ (4) فُلاَنٌ لاَ يَنْقَطِعُ حَتّٰي تَنْقَطِعُ خُصُوْمَةٌ: فلاں انسان بحث و تمحیص سے نہیں تھکتا، اس کا فریق مخالف ہی تھک ہار کر بس کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے مَلَلْ يا سَأْمُهُ لفظ محض لفظی مشابہت کے طور پر استعمال ہوا ہے، ورنہ اللہ تعالیٰ تھکنے یا اکتانے سے پاک ہے۔
فوائد ومسائل
جب انسان کوئی نیک کام کرنا شروع کرے تو وہ اپنی مقدرت وطاقت کا لحاظ رکھے کہ میں یہ کام ہمیشہ کس حد تک کر سکتا ہوں کیونکہ وہ کام جس پر ہمیشگی اور دوام کیا جائے۔ وہ اس کام سے بڑھ جاتا ہے۔ جو زیادہ ہو اور چند دن کے بعد تھک ہار کر اس کو چھوڑ دیا جائے اور ظاہر ہے ایسے عمل سے مراد نفلی نماز ہے جس کو انسان ذاتی اور شخصی طور پر اپنے ظروف واحوال کے مطابق اپناتا ہے وہ اعمال جو فرض ہیں ان میں کمی وبیشی تو انسان کے اختیار سے باہر ہے وہ تو شریعت کے مقرر کردہ طریقہ کے مطابق ہی کیے جائیں گے اس لیے نفلی نماز کو انفرادی طور پر گھر میں پڑھنا بہتر اور افضل قرار دیا گیا ہے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےتراویح کی جماعت عام افراد کی سہولت اور آسانی کے لیے شروع کروائی، لیکن بہتر اورپسندیدہ عمل اس کو قرار دیا گیا کہ انسان انفرادی طور پر رات کے آخری حصہ میں پڑھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
'A'isha reported that the Messenger of Allah (ﷺ) had a mat and he used it for making an apartment during the night and observed prayer in it, and the people began to pray with him, and he spread it (the mat) during the day time. The people crowded round him one night. He (the Holy Prophet) then Eaid: O people, perform such acts as you are capable of doing, for Allah does not grow weary but you will get tired. The acts most pleasing to Allah are those which are done continuously, even if they are small. And it was the habit of the members of Muhammad's (ﷺ) household that whenever they did an act they did it continuously.