Muslim:
The Book of Zakat
(Chapter: The sin of one who withholds Zakat)
مترجم: ١. الشيخ محمد يحيىٰ سلطان محمود جلالبوري (دار السّلام)
ترجمۃ الباب:
1648.
عبدالعزیز بن مختار نے کہا: ہمیں سہیل بن ابی صالح نے اپنے والد سے حدیث سنائی، انھوں نے حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، انھوں نےکہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ""کوئی بھی خزانے کا مالک نہیں جو اس کی زکاۃ ادا نہیں کرتا، مگر اس کے خزانے کو جہنم کی آگ میں تپایا جائےگا، پھر اس کی تختیاں بنائی جائیں گی اور ان سے اس کے دونوں پہلوؤں اور پیشانی کو داغا جائےگا حتیٰ کہ اللہ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرما دے گا، (یہ) اس دن میں ہوگا جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہے، پھر اسے جنت یا جہنم کی طرف اس کا راستہ دکھا دیا جائے گا۔ اور کوئی بھی اونٹوں کا مالک نہیں جو ان کی زکاۃ ادا نہیں کرتا مگر اسے ان (اونٹوں) کے سامنے وسیع چٹیل میدان میں لٹایا جائے گا جبکہ وہ اونٹ (تعداد اور جسامت میں) جتنے زیادہ سے زیادہ وافر تھے اس حالت میں ہوں گے (وہ) اس کے اوپر دوڑ لگائیں گے۔ جب بھی ان میں آخری اونٹ گزرے گا پہلا اونٹ اس پر دوبارہ لایا جائےگا، حتیٰ کہ اللہ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرما د ے گا۔ (یہ) ایک ایسے دن میں(ہوگا) جو پچاس ہزار سال کے برابر ہو گا، پھر اسے جنت یا دوزخ کی طرف اس کا راستہ دیکھا دیا جائے گا۔ اور جو بھی بکریوں کا مالک ان کی زکاۃ ادا نہیں کرتا تو اسے وہ وافر ترین حالت میں جس میں وہ تھیں، ان کے سامنے ایک وسیع وعریض چٹیل میدان میں بچھا (لٹا) دیا جائے گا، وہ اسے اپنے کھروں سے روندیں گی اور اپنے سینگوں سے ماریں گی۔ ان میں نہ کوئی مڑے سینگوں والی ہو گی اور نہ بغیر سینگوں کے۔ جب بھی آخری بکری گزرے گی اسی وقت پہلی دوبارہ اس پر لائی جائے گی۔ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ ایک ایسے دن میں جو پچاس ہزار سال کے برابر ہے، اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کر دے گا۔ پھر اسے جنت یا دوزخ کی طرف اس کا راستہ دکھایا جائے گا۔‘‘ سہیل نے کہا: میں نے نہیں جانتا کہ آپﷺ نے گائے کا تذکرہ فرمایا یا نہیں۔ صحابہ (رضوان اللہ عنھم اجمعین ) نے عرض کی: اے اللہ کے رسول ﷺ! تو گھوڑے (کا کیا حکم ہے؟) آپ ﷺ نے فرمایا: ’’قیامت کے دن تک خیر، گھوڑوں کی پیشانی میں ہے۔‘‘ یا فرمایا: ’’گھوڑوں کی پیشانی سے بندھی ہوئی ہے۔‘‘ سہیل نے کہا: مجھے شک ہے۔ (فرمایا) ’’گھوڑے تین قسم کے ہیں۔ یہ ایک آدمی کے لئے باعث اجر ہیں، ایک آدمی کے لئے پردہ پوشی کا باعث ہیں۔ اور ایک کے لئے بوجھ اور گناہ کا سبب ہیں۔ وہ گھوڑے جو اس (مالک) کے لئے اجر (کا سبب) ہیں تو (ان کا مالک) وہ آدمی ہے جو انھیں اللہ کے راستے میں (جہاد کے لئے) پالتا ہے۔ اور تیار کرتا ہے تو یہ گھوڑے کوئی چیز اپنے پیٹ میں نہیں ڈالتے مگر اللہ اس کی وجہ سے اس کے لئے اجر لکھ دیتا ہے۔ اگر وہ انھیں چراگاہ میں چراتا ہے تو وہ کوئی چیز بھی نہیں کھاتے۔ مگر اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کے لئے اجر لکھ دیتا ہے۔اور اگر وہ انھیں کسی نہر سے پانی پلاتا ہے تو پانی کے ہر قطرے کے بدلے جسے وہ اپنے پیٹ میں اتارتے ہیں۔ اس کے لئے اجر ہے۔‘‘ حتیٰ کہ آپﷺ نے ان کے پیشاب اور لید کرنے میں بھی اجر ملنے کا تذکرہ کیا۔ ’’اور اگر یہ گھوڑے ایک یا دو ٹیلوں (کا فاصلہ) دوڑیں۔ تو اس کے لئے ان کے ہر قدم کے عوض جو وہ اٹھاتے ہیں، اجر لکھ دیا جاتا ہے۔ اور وہ انسان جس کے لئے یہ باعث پردہ ہیں تو وہ آدمی ہے جو انھیں عزت وشرف اور زینت کے طور پر رکھتا ہے۔ اور وہ تنگی اور آسانی (ہرحالت) میں ان کی پشتوں اور ان کے پیٹوں کا حق نہیں بھولتا۔ رہا وہ آدمی جس کے لئے وہ بوجھ ہیں تو وہ شخص ہے جو انھیں ناسپاس گزاری کے طور پر، غرور اور تکبر کرنے اور لوگوں کو دکھانے کے لئے ر کھتا ہے تو وہی ہے جس کے لئے یہ گھوڑے بوجھ کا باعث ہیں۔‘‘ لوگوں نے کہا: اے اللہ کے ر سول ﷺ! تو گدھے (ان کا کیا حکم ہے؟) آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے مجھ پر ان کے بارے میں اس منفرد اور جامع آیت کے سوا کچھ نازل نہیں کیا: ’’تو جو کوئی زرہ برابر نیکی کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا۔‘‘
"زکاۃ"زكا.يزكو.زكاةسے ہے۔اس کا لغوی معنی اگنا اور بڑھنا ہے۔بڑھوتری تبھی ممکن ہے جب اگنے والی چیز آفات و امراض سے پاک ہو، زكا کا ایک معنی اچھا یا پاک ہونا بھی ہے۔عرب کہتے ہیں۔زكت الارض اس کا معنی ہے۔طابتیعنی زمین اچھی صاف ستھری ہوگئی۔تزکیہ اسی سے ہے۔نفوس کا تزکیہ یہ ہے کہ ان کو آفات،بہت سے امراض اور آلائشوں سے پاک کیا جائے۔انسان کو اللہ تعالیٰ فطرت سلیمہ عطا کرکے دنیا میں بھیجتا ہے۔ماں باپ اور دوسرے قریبی لوگ اس کی فطرت کو آلودہ کردیتے ہیں۔سب سے زیادہ آلودگی یہ ہوتی ہے کہ انسان وجود عطاکرنے والے اور پالنے والے اللہ کی محبت کے بجائے مادی اشیاء کی محبت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔یہ مرض باقی دنیا کے تمام امراض کا سبب بنتا ہے۔اسی سے حرص وہوس،لالچ،خودغرضی،ظلم ،سرکشی،طغیان،غرض سب بیماریاں پیدا ہوتی اور بڑھتی ہیں۔انبیائے کرام خصوصاً محمد رسول اللہﷺ کی بعثت کے بنیادی مقاصد میں سے ایک مقصد نفوس انسانی کا تزکیہ کرنا،یعنی انھیں ان تمام مہلک بیماریوں سے نجات دلاناہے،اللہ کا ارشاد ہے"هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ"وہ جس نے امیوں(ان پڑھوں) میں انھی میں سے ایک رسول مبعوث کیا جو ان کے سامنے اس کی آیات پڑھتا ہے اور انھیں پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب وحکمت سکھاتا ہے،یقیناً وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔"(الجمعۃ۔2:62)ویسے تو تمام ارکان اسلام تزکیہ نفوس کا زریعہ ہیں،ان میں سے زکاۃ بطور خاص اس مقصد کے لئے مقرر کی گئی ہے۔قرآن مجید میں صدقات اور اللہ کی راہ میں مال دینے کو تزکیے کا زریعہ بتایا گیا ہے۔رسول اللہﷺسے کہا گیا: خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ"ان کے مالوں میں سے صدقہ(زکاۃ) لیں،اس کے زریعے سے انھیں پاک کریں،انھیں صاف ستھرا کریں اور ان کو دعا دیں۔"(التوبہ۔9:103)اپنا تزکیہ اللہ کی راہ میں مال دے کر کیا جاسکتا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہےالَّذِي يُؤْتِي مَالَهُ يَتَزَكَّىٰ "جو اپنا مال دیتا ہے پاک ہونے کے لئے۔"(اللیل۔18:92)امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیںنفس المتصدق تزكو وماله يزكو(اي)يطهر ويزيد في المعني"صدقہ دینے والا خود بھی پاک ہوتا ہے اور اس کا مال بھی پاک ہوتا ہے۔۔۔"(مجموع فتاویٰ لابن تیمیہؒ8/25)
اس کے مقاصد میں سے ایک مواسات بھی ہے۔بنیادی اصول یہ ہے۔(توخذ من اغنيائهم وترد الي فقرائهم)"ان کے مال داروں سے لیا جائے اور ان کے فقیروں پر لوٹایا جائے۔"اس لحاظ سے زکاۃ کی صحیح ادائیگی امت کی اجتماعیت اور یکجہتی کی ضامن ہے۔اسلام نے زکاۃ بنیادی طور پر انھی اموال میں مقرر کی ہے۔جن میں بڑھوتری(نمو) ہوتی ہے،یعنی مویشی،کھیتی باڑی ،مال تجارت اورنقدی جن میں باقی تمام اموال کی قدر محفوظ رکھی جاسکتی ہے۔
یہ بھی اسلام کی رحمت کا مظہر ہے۔کہ زکاۃ کا ایک نصاب مقرر کیا گیا ہے۔مقصود یہ ہے کہ جن لوگوں کے پاس بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کے بعد کچھ زائد ہو۔ان سے زکاۃ وصول کی جائے،جن کے پاس بنیادی ضرورتوں کے لئے بھی مال نہ ہو یا کم ہو ان کو چھوٹ دی جائے بلکہ ان کی مدد کی جائے۔جدید معاشیات نے ٹیکس کے حوالے سے بنیادی چھوٹ کا تصور نصاب زکاۃ ہی سے لیاہے۔
رسول اللہ ﷺ نے بہت آسان اور جامع لفظوں میں بہت خوبصورتی کے ساتھ اس نصاب کو یوں بیان فرمایا:()"پا نچ وسق سے کم میں صدقہ نہیں اور نہ پانچ اونٹوں سے کم میں صدقہ ہے۔اور نہ پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں صدقہ ہے۔"اور آپ ﷺنے اپنی پانچوں انگلیوں سے اشارہ کیا۔
یہی کتاب الزکاۃ میں امام مسلم ؒ کی لائی ہوئی پہلی حدیث ہے۔
وسق ماپنے کا پیمانہ ہے۔غلہ،خشک کھجوریں،کشمش وغیرہ کا لین دین وسق سے ماپ کرہوتا تھا۔پانی اور دوسری مائع اشیاء کو بھی اسی پیمانے سے ماپا جاتا تھا۔ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے۔اس بارے میں اگرچہ ابن ماجہ،ابو داود،اور نسائی میں مرفوع حدیثیں بھی موجود ہیں لیکن وہ سب کی سب ضعیف ہیں۔(التلخیص الجیر لابن حجر 169/2،رقم:841۔842)
اس حوالے سے اعتماد اس بات پر ہے کہ اس مقدار پر اجماع ہے۔(مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہؒ447/5) صاع کی مقدار پر البتہ اہل کوفہ اور اہل حجاز یا یوں کہہ لیجئے تمام ائمہ(مالک،شافعی،احمدؒ) کے درمیان اختلاف ہے۔حجاز میں زرعی اجناس کے لین دین کا نمایاں مرکز مدینہ تھا۔ان کا صاع ہی حجازی صاع کہلاتا تھا۔کوفہ میں حجاج بن یوسف نے جوصاع متعارف کروایا تھا وہ حجازی صاع سے نسبتاًبڑاتھا،اسے صاع عراقی یا صاع حجاجی کہا جاتا تھا۔
اہل کوفہ ایک صاع کووزن میں 8 رطل کے برابر قرار دیتے ہیں جبکہ اہل حجاز 5.3 رطل کے برابر۔
امام ابو یوسف اورکئی دوسرے اہل کوفہ نے حج کے موقع پر زیارت مدینہ کے دوران میں جب پتہ لگانا چاہا کہ رسول اللہ ﷺ کاصاع کتنا تھا تو کثیر تعداد میں مہاجرین اور انصار کے بیٹوں نے اپنے اپنے گھروں سے اپنے خاندانی صاع،جوصحابہؓ استعمال کرتے رہے تھے ،لا کردکھائے،امام ابو یوسف ؒ نے کہا:میں نے ان کی مقدار جانچی تو وہ سب آپس میں مساوی اور 5.3 رطل کے برابر تھے۔(فرايت امرا قويا فقد تركت قول ابي حنيفة في الصاع واخذت بقول اهل المدينة)"میں نے بہت پختہ بات دیکھی تو میں نے صاع کے بارے میں ابو حنیفہ کا قول چھوڑ دیا اور اہل مدینہ کاقول لے لیا۔"(سنن الکبریٰ للبیہقی:171:4 وسنن الدارقطنی:150:2 حدیث 2105 ط:دارالکتب العلمیۃ۔۔۔امام شوکانیؒ اس کی سند کو جید قرار دیتے ہیں)
جدید محققین نے آج کل کے حساب سے صاع کا وزن معلوم کیا تو وہ ان کے خیال کے مطابق2176۔گرام بنتاہے۔(فقہ الزکاۃ للدکتور یوسف القرضاوی372/1)
گندم کے پانچ وسق 653 کلوگرام بنتے ہیں۔(فقہ الزکاۃ للدکتور یوسف القرضاوی:373/1)
ایک اوقیہ میں چالیس درہم ہوتے ہیں،ایک درہم کاوزن جدید تحقیق کے مطابق 2.975 گرام بنتاہے،اس طرح ایک اوقیہ کا وزن ایک سو انیس گرام اور پانچ اوقیہ چاندی کاوزن پانچ سو پچانوے گرام بنتا ہے۔اس کے تولے بنائے جائیں تو تقریباً اکاون تولے بنتے ہیں۔سابقہ اندازہ ساڑھے باون تولے چاندی کا تھا جو اس مقدار کے قریب ہی تھا۔
سونے کے نصاب زکاۃ کا تذکرہ صحیحین کی احادیث میں نہیں۔امام ابو داودؒ نے حضرت علیؓ کے حوالے سے حدیث بیان کی ہے،اس کے الفاظ ہیں:()"تم پر کوئی چیز(بطور زکاۃ ادا کرنا)فرض نہیں،یعنی سونے میں جب تک تمھارے پاس(کم از کم) بیس دینار نہ ہوں۔جب تمھارے پاس بیس دینار ہوں اور ان پر سال گزرجائے توان میں آدھا دینار(زکاۃ) ہے،جو اس سے زیادہ ہوگا وہی اس حساب کے مطابق(محسوب) ہوگا۔"(سنن ابی داود،الزکاۃ باب فی الذکاۃ السائمۃ حدیث 1573۔قاضی عیاض ؒ کہتے ہیں:سونے کے نصاب پر اجماع ہے۔
سونے کے دینار میں چوبیس قراط ہوتے ہیں۔رسول اللہ ﷺ کے دور میں رومی اور ایرانی دینار استعمال ہوتے تھے۔عبدالملک بن مروان نے زکاۃ کے نصاب کو پیش نظر رکھتے ہوئے،اہل علم کے اتفاق سےجو دینار ڈھالے اور جن کے مطابق صدیوں تک دینار ڈھالے جاتے رہے وہ دینار مل بھی چکے ہیں۔ان دیناروں کے وزن کے مطابق سونے کی زکاۃ کا نصاب85گرام بنتا ہے۔یہ برصغیر پاک وہند میں سونے کے نصاب کا جو حساب لگایا گیاتھا وہ ساڑھے سات تولے تھا،اس کے ستاسی گرام بنتے ہیں،یعنی محض دو گرام زیادہ۔اب تقریباً پورے عالم اسلام کا 85 گرام پر اتفاق ہے۔
نقدی:رسول اللہ ﷺکے عہد مبارک میں سونے چاندی یا ان کے ڈھلے ہوئے سکے بطور نقدی استعمال ہوتے تھے۔علمائے امت کا اجماع ہے کہ کرنسی کو انھی پر قیاس کیاجائے گا۔مغربی استعمار کے غلبے کے بعد دنیا میں کاغذ کی کرنسی رائج ہوئی۔ہر ملک ایسی کرنسی سونے یا چاندی کی بنیاد پر جاری کرتاتھا۔(خزانے میں کرنسی کے مساوی یا ایک خاص تناسب سے سونا یا چاندی کا موجود ہوناضروری تھا)کچھ عرصے بعد یہ بنیاد بھی ختم ہوگئی،اب کرنسی کی بنیاد نہ سونے پر ہے نہ چاندی پر۔اب لوگوں کے پاس موجودہ کرنسی پر زکاۃ کانصاب کیاہوگا؟بعض لوگ کہتے ہیں اسے چاندی کے نصاب پر قیاس کیا جائے۔بعض سونے کے نصاب پر قیاس کرنے کے قائل ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چاندی اورسونے دونوں کا نصاب قیمت یا مالیت کے اعتبار سے مساوی تھا لیکن بعد میں چاندی اپنی قیمت برقرار نہ رکھ سکی،باقی اشیاء جن پر زکاۃ فرض ہے۔مثلاً بھیڑ ،بکریاں،یا اونٹ وغیرہ ان کی مالیت کے ساتھ چاندی کے نصاب کی مالیت کوئی مطابقت نہیں رکھتی،ساڑھے باون تولے چاندی کی مالیت میں پانچ چھ سے زیادہ بکریاں نہیں خریدی جاسکتیں۔دوسری طرف سونے کی قیمت بھی غیر متناسب طریقے پر زیادہ ہورہی ہے۔اب کرنسی کی زکاۃ کامسئلہ انتہائی سنجیدہ غور وفکر کا متقاضی ہے۔
امام قرطبیؒ نے ابو عبید قاسم بن سلامؒ کے حوالے سے لکھا ہے۔کے اسلام کے ابتدائی دور میں ایرانی اور رومی د ونوں قسموں کے درہم متد اول تھے۔ایک دوسرے کا آدھا تھا۔ایک کا وزن آٹھ دانق تھا اور دوسر ے کا چاردانق،لوگ دونوں کو مساوی طور پر ملا کر یعنی آدھے بڑے اورآدھے چھوٹے دراہم سے اپنے معاملات طے کیا کرتے تھے۔اسلام آیا تو لوگوں نے زکاۃ کی ادائیگی کے لئے یہی طریقہ اختیار کیا۔وہ سو ایرانی اور سو رومی درہموں کو ملا کر ان سے زکاۃ کے نصاب کا تعین کرتے۔دونوں کو مساوی تعداد میں ملانے سے پانچ اوقیہ چاندی کا نصاب پورا ہوجاتا،اسی طرح زکاۃ ادا کی جاتی۔عبدالملک نے جب اپنے درہم ڈھلوانے کا ارادہ کیا تو تمام اہل علم کو جمع کیا۔انھوں نے درہم کا وزن،دونوں درہموں کی اوسط،یعنی 4+8 دانق کا نصف6 دانق مقرر کیا۔اس طرح سے دو سو درہموں میں پانچ اوقیہ چاندی پوری ہوجاتی تھی۔
اگر سونے کی قیمتیں اسی طرح غیر متناسب انداز میں بڑھتی رہیں تو ایسا کیا جاسکتاہے کہ کرنسی کے لئے چاندی کے نصاب کی مالیت کا نصف سونے کی نصاب کی مالیت کا نصف ملا کر مقدار نصاب متعین کرلیا جائے۔اس کے لئے پورے عالم اسلام کے حوالے سے اہل علم کا اجماع حاصل کرنا ناگزیر ہوگا۔فی الحال یہی مناسب ہے کہ جب تک سونے کے نصاب اور چاندی کو چھوڑ کرباقی اشیاء کے نصاب کی قیمتیں قریب قریب رہتی ہیں سونے کے نصاب کو کرنسی کے نصاب کی بنیاد بنایا جائے۔
کتاب الذکاۃ میں امام مسلم ؒ نے جس ترتیب سے احادیث بیان کی ہیں،۔اس کے بارے میں امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:امام مسلمؒ نےامام مالک ؒ کی موطا کی طرح اپنی صحیح میں صحت کے اعلیٰ ترین معیار پر احادیث ترتیب دی ہیں۔انھوں نے پہلے چاندی کا نصاب ذکر کیا ہے۔پھر اونٹوں کا ،پر اجناس خوردنی اور خشک پھلوں کا،پھر مویشی اور دیگر اشیاء کا، پھر یہ کہ ایک سال گزرنا ضروری ہے۔اس غرض سے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،عمر ؓ ،اور ابن عمر ؓ ،کے حوالے سے روایتیں بیان کیں،اس میں اگرچہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابن عباسؓ اختلاف کرتے ہیں،لیکن دو خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین نے جو کیا ہے وہ اس لئے راحج ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا۔عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهدين من بعدي"تم میری سنت اور میرے بعد ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو۔"(شرح مشکل الآثار 3/223 حدیث 1186،نیز دیکھئے،سنن ابن ماجہ حدیث 42،43،وسنن ابی داود حدیث ،4607۔4608) اور یہ بھی فرمایا:((فان يطيعواابابكر وعمر يرشدوا))"اگر وہ ابو بکر اور عمر رضوان اللہ عنھم اجمعین کی اطاعت کریں تو راہنمائی پائیں گے"(صیح مسلم حدیث 681) اس کے بعد امام مسلمؒ نے سونے کی زکاۃ کا ذکر کیا ہے۔کیونکہ اسکی دلیل کی قوت نسبتاً کم ہے۔پھر ان چیزوں کاذکر کیاگیاہے جن میں زکاۃ فرض کی گئی ہے۔اس حوالے سے قرآن کی آیات اور احادیث بیان کی ہیں۔ان میں بہترین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت اور زکاۃ کےی بارے میں آپ کا مکتوب ہے۔ان کے بعد وہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ سے روایت لائے ہیں۔(مجموع فتاویٰ لابن تیمیہؒ25:9)
عبدالعزیز بن مختار نے کہا: ہمیں سہیل بن ابی صالح نے اپنے والد سے حدیث سنائی، انھوں نے حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی، انھوں نےکہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ""کوئی بھی خزانے کا مالک نہیں جو اس کی زکاۃ ادا نہیں کرتا، مگر اس کے خزانے کو جہنم کی آگ میں تپایا جائےگا، پھر اس کی تختیاں بنائی جائیں گی اور ان سے اس کے دونوں پہلوؤں اور پیشانی کو داغا جائےگا حتیٰ کہ اللہ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرما دے گا، (یہ) اس دن میں ہوگا جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہے، پھر اسے جنت یا جہنم کی طرف اس کا راستہ دکھا دیا جائے گا۔ اور کوئی بھی اونٹوں کا مالک نہیں جو ان کی زکاۃ ادا نہیں کرتا مگر اسے ان (اونٹوں) کے سامنے وسیع چٹیل میدان میں لٹایا جائے گا جبکہ وہ اونٹ (تعداد اور جسامت میں) جتنے زیادہ سے زیادہ وافر تھے اس حالت میں ہوں گے (وہ) اس کے اوپر دوڑ لگائیں گے۔ جب بھی ان میں آخری اونٹ گزرے گا پہلا اونٹ اس پر دوبارہ لایا جائےگا، حتیٰ کہ اللہ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرما د ے گا۔ (یہ) ایک ایسے دن میں(ہوگا) جو پچاس ہزار سال کے برابر ہو گا، پھر اسے جنت یا دوزخ کی طرف اس کا راستہ دیکھا دیا جائے گا۔ اور جو بھی بکریوں کا مالک ان کی زکاۃ ادا نہیں کرتا تو اسے وہ وافر ترین حالت میں جس میں وہ تھیں، ان کے سامنے ایک وسیع وعریض چٹیل میدان میں بچھا (لٹا) دیا جائے گا، وہ اسے اپنے کھروں سے روندیں گی اور اپنے سینگوں سے ماریں گی۔ ان میں نہ کوئی مڑے سینگوں والی ہو گی اور نہ بغیر سینگوں کے۔ جب بھی آخری بکری گزرے گی اسی وقت پہلی دوبارہ اس پر لائی جائے گی۔ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ ایک ایسے دن میں جو پچاس ہزار سال کے برابر ہے، اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کر دے گا۔ پھر اسے جنت یا دوزخ کی طرف اس کا راستہ دکھایا جائے گا۔‘‘ سہیل نے کہا: میں نے نہیں جانتا کہ آپﷺ نے گائے کا تذکرہ فرمایا یا نہیں۔ صحابہ (رضوان اللہ عنھم اجمعین ) نے عرض کی: اے اللہ کے رسول ﷺ! تو گھوڑے (کا کیا حکم ہے؟) آپ ﷺ نے فرمایا: ’’قیامت کے دن تک خیر، گھوڑوں کی پیشانی میں ہے۔‘‘ یا فرمایا: ’’گھوڑوں کی پیشانی سے بندھی ہوئی ہے۔‘‘ سہیل نے کہا: مجھے شک ہے۔ (فرمایا) ’’گھوڑے تین قسم کے ہیں۔ یہ ایک آدمی کے لئے باعث اجر ہیں، ایک آدمی کے لئے پردہ پوشی کا باعث ہیں۔ اور ایک کے لئے بوجھ اور گناہ کا سبب ہیں۔ وہ گھوڑے جو اس (مالک) کے لئے اجر (کا سبب) ہیں تو (ان کا مالک) وہ آدمی ہے جو انھیں اللہ کے راستے میں (جہاد کے لئے) پالتا ہے۔ اور تیار کرتا ہے تو یہ گھوڑے کوئی چیز اپنے پیٹ میں نہیں ڈالتے مگر اللہ اس کی وجہ سے اس کے لئے اجر لکھ دیتا ہے۔ اگر وہ انھیں چراگاہ میں چراتا ہے تو وہ کوئی چیز بھی نہیں کھاتے۔ مگر اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کے لئے اجر لکھ دیتا ہے۔اور اگر وہ انھیں کسی نہر سے پانی پلاتا ہے تو پانی کے ہر قطرے کے بدلے جسے وہ اپنے پیٹ میں اتارتے ہیں۔ اس کے لئے اجر ہے۔‘‘ حتیٰ کہ آپﷺ نے ان کے پیشاب اور لید کرنے میں بھی اجر ملنے کا تذکرہ کیا۔ ’’اور اگر یہ گھوڑے ایک یا دو ٹیلوں (کا فاصلہ) دوڑیں۔ تو اس کے لئے ان کے ہر قدم کے عوض جو وہ اٹھاتے ہیں، اجر لکھ دیا جاتا ہے۔ اور وہ انسان جس کے لئے یہ باعث پردہ ہیں تو وہ آدمی ہے جو انھیں عزت وشرف اور زینت کے طور پر رکھتا ہے۔ اور وہ تنگی اور آسانی (ہرحالت) میں ان کی پشتوں اور ان کے پیٹوں کا حق نہیں بھولتا۔ رہا وہ آدمی جس کے لئے وہ بوجھ ہیں تو وہ شخص ہے جو انھیں ناسپاس گزاری کے طور پر، غرور اور تکبر کرنے اور لوگوں کو دکھانے کے لئے ر کھتا ہے تو وہی ہے جس کے لئے یہ گھوڑے بوجھ کا باعث ہیں۔‘‘ لوگوں نے کہا: اے اللہ کے ر سول ﷺ! تو گدھے (ان کا کیا حکم ہے؟) آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے مجھ پر ان کے بارے میں اس منفرد اور جامع آیت کے سوا کچھ نازل نہیں کیا: ’’تو جو کوئی زرہ برابر نیکی کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو بھی خزانے کا مالک اس کی زکاۃ ادا نہیں کرے گا اس کے خزانہ کو جہنم کی آگ میں میں تپایا جائے گا اور اس کی تختیاں بنائی جائیں گی اور ان سے اس کے دونوں پہلوؤں اور پیشانی کو داغا جائےگا حتیٰ کہ اللہ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرما دے گا، اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے، پھر وہ اپنا راستہ جنت یا جہنم کی طرف اس کا راستہ دیکھ لے گا۔ اور کوئی بھی اونٹوں کا مالک نہیں جو ان کی زکاۃ ادا نہیں کرتا مگر اسے ان اونٹوں کے سامنے چٹیل میدان میں لٹایا جائے گا اس کے اوپر دوڑیں گے۔ جب بھی ان میں آخری اونٹ گزرے گا اس پر پہلا اونٹ دوبارہ لایا جائےگا، حتیٰ کہ اللہ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ فرما دے گا۔ اس دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے، پھر اسے اس کا راستہ جنت یا دوزخ کی طرف دکھا دیا جائے گا۔ اور جو بھی بکریوں کا مالک ان کی زکاۃ ادا نہیں کرتا تو اسے ان کے سامنے ان کی انتہائی پوری تعداد اور فربہ حالت میں بچھایا جائے گا ایک وسیع وعریض چٹیل میدان میں وہ اسے اپنے کھروں سے روندیں گی اور اپنے سینگوں سے ماریں گی۔ ان میں کوئی مڑے سینگوں والی یا بے سینگوں کے نہیں ہو گی، جب آخری بکری گزرے گی اسی وقت پہلی دوبارہ پہنچ جائے گی۔ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کر دے گا۔ا س دن میں جس مقدار تمہارے شمار سے پچاس ہزار سال ہو، پھر وہ اپنا راستہ جنت یا دوزخ کی طرف دیکھ لے گا۔‘‘ سہیل کا قول ہے، میں نہیں جانتا کہ آپ نے گائیوں کا تذکرہ فرمایا یا نہیں۔ صحابہ(رضوان اللہ عنھم اجمعین ) نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! گھوڑے کا کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’گھوڑوں کی پیشانی میں یا فرمایا گھوڑوں کی پیشانی سے قیامت تک خیر بندھی ہوئی ہے۔‘‘ شک سہیل کو پیش آیا ہے۔ ’’گھوڑے تین قسم کے ہیں۔ یہ ایک آدمی کے لئے اجر و ثواب کا باعث ہیں، اور دوسرے کے لیے بوجھ اور گناہ کا سبب ہیں۔ اور کسی تیسرے آدمی کے لیے ستر (پردہ پوش) ہیں) وہ گھوڑے جو انسانوں کے لیے اجر کا سبب ہیں تو وہ آدمی جو انھیں فی سبیل اللہ رکھتا ہے ارو جہاد کے لیے تیار کرتا ہے تو ان کے پیٹ کے اندر تو کچھ غائب ہوتا ہے اللہ اس کے لیے اسے اجر لکھتا ہے اگر وہ انہیں چراگاہ میں چراتا ہے تو وہ جو کھاتے ہیں اللہ تعالی اس کے لیے اس کے (کھانے) کے عوض اجر لکھتا ہے اور اگر وہ انھیں نہر سے پانی پلاتا ہے تو ہر وہ قطرے جو اس کے پیٹ میں گیا ہے اس کے عوض اجر لکھتا ہے۔ حتیٰ کہ آپﷺ نے ان کے پیشاب اور لید کے عوض اجر ملنے کا تذکرہ کیا۔ اور اگر یہ ایک یا دو ٹیلے دوڑیں۔ تو اس کے لئے ان کے ہر قدم کے عوض جو وہ اٹھاتے ہیں، اجر لکھ دیا جاتا ہے۔ اور وہ جس کے لئے یہ سترہیں تو وہ آدمی ہے جو انھیں عزت وشرف اور حسن و جمال کی خاطر رکھتا ہے۔ اور ان کی پشتوں اور ان کے پیٹوں میں جو ہے اسے تنگی اور خوشحالی میں نہیں بھولتا۔ رہا وہ آدمی جس کے لئے وہ بوجھ ہیں تو وہ شخص ہے جو انھیں اترانے، سرکشی و طغیانی اور شوخی بگھاڑتے ہیں اور لوگوں کو دکھاوے کے لئے ر کھتا ہے، تو ایسے آدمی کے لئے یہ گھوڑے بوجھ کا باعث ہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کیا، تو گدھوں کا اے اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے مخصوص طور پر مجھ پر کوئی حکم نازل نہیں فرمایا مگر یہ جامع اوریگانہ آیت کے جو ذرہ برابر نیکی کرے گا وہ اسے دیکھے گا۔اور جوذرہ برابربرائی کرے گا وہ اسے دیکھے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث
(1) نوَاص: نَاصِيَةکی جمع ہے پیشانی۔ (2) الخير: مال، نیکی و بہتری، مراد اجر و غنیمت ہے۔ (3) تكرماً و تجملاً: دوسروں سے اپنی عزت و شرف کو بچانے کے لیے اور اپنے حسنِ خصال اور خوبی کے اظہار کے لیے کہ سواری کسی سے مانگنی نہ پڑے اور ضرورت کے وقت کسی کو دے سکے۔ (4) اشراً: اترانا۔ (5) بطراً: حق سے سرکشی اور طغیان اختیار کرنا۔ (6) البذخ: فخر و گھمنڈ اور بڑائی کا اظہار کرنا۔
فوائد ومسائل
گھوڑا ایک اعلیٰ اور بہترین سواری ہے اس سے جائز وناجائز ہر قسم کے کام لیے جا سکتے ہیں اور اس کا سب سے بہتر استعمال یہ کہ اسے جہاد میں استعمال کیا جائے اور قیامت تک اس کا یہ استعمال برقرار رہے گا۔ گویا قیامت تک جہاد میں استعمال ہو کر مالک کے لیے اجر وغنیمت کا باعث بنتا رہے گا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Abu Hurairah (RA) reported Allah's Messenger (ﷺ) as saying: No owner of the treasure who does not pay Zakat (would be spared) but (his hoards) would be heated in the Fire of Hell and these would be made into plates and with these his sides, his forehead would be cauterised till Allah would pronounce judgment among His servants during a day, the extent of which would be fifty thousand years. He would then see his path, leading either to Paradise or to Hell. And no owner of the camels who does not pay Zakat (would be spared) but a soft sandy plain would be set for him and they (the camels) would be made to pass over him till the last of them would be made to return till Allah would pronounce judgment among His servants during a day, the extent of which would be fifty thousand years. He would then see his path leading him to Paradise or leading him to Hell. And no owner of the cattle and goats who does not pay Zakat (would be spared) but a soft sandy plain would be set for him, he would find none of them missing, with twisted horns, without horns, or with broken horns, and they will gore him with their horns and trample him with their hoofs and they would be made to pass over him till the last of them would be made to return till Allah would pronounce judgment among His servants, during a day the extent of which would be fifty thousand years, and he would see the paths leading to Paradise or to Hell. Suhail said: I do not know whether he made mention of the cows. They said: Messenger of Allah (ﷺ) , what about the horses? He said: The horses have goodness in their foreheads (or he said) or goodness is ingrained in the foreheads of the horses (Suhail said: I am in doubt as to what was actually said) up till the Day of judgement. The horses are of three kinds. They are a source of reward to a person, they are a covering to a person, and they are a burden to a person. As for those which bring reward is that a person would get reward who rears them for the sake of Allah and trains them for Him, and nothing disappears in their stomachs but Allah would record for him a good deed. And if they were to graze in the meadow, they would eat nothing but Allah would record for him a reward. And if they were to drink water from the canal, with every drop that would disappear in their stomachs there would be reward (for the owner). He went on describing till a reward was mentioned for their urine and dung. And if they pranced a course or two, there would be recorded a reward for every pace that they covered. As for one for whom they are a covering, he is the man who rears them for honour and dignity but does not forget the right of their backs and their stomachs, in plenty and adversity. As regards one for whom they are a burden, he is that who rears them for vainglory and showing off to the people; for him they are, the burden. They said: Messenger of Allah, what about asses? He said: Allah has not revealed to me anything in regards to it except this one comprehensive verse: "He who does an atom's weight of good will see it, and he who does an atom's weight of evil will see it" (xcix. 7).