تشریح:
(1) دعا کرتے وقت عجز و انکسار مقصود ہوتا ہے، اس لیے بارش کے لیے کھڑے ہو کر دعا کرنی چاہیے۔
(2) حضرت عبداللہ بن یزید ؓ کی موقوف روایت کے بعد مرفوع روایت بیان کی گئی ہے تاکہ موقوف سے اس کی تفسیر ہو جائے کہ رسول اللہ ﷺ نے بھی اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر بارش کے لیے دعا کی تھی، منبر پر کھڑے نہیں ہوئے تھے۔
(3) عبداللہ بن یزید سیدنا عبداللہ بن زبیر ؓ کی طرف سے کوفہ کے گورنر تھے، انہوں نے انہیں حکم دیا تھا کہ لوگوں کے لیے نماز استسقاء کا اہتمام کریں، چنانچہ لوگ باہر میدان میں گئے۔ ان کے ہمراہ حضرت براء بن عازب اور حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہم تھے۔ سب نے وہاں بارش کی دعا کی تھی۔ یہ واقعہ 64 ہجری کا ہے۔
(4) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ خطبے کے بعد نماز استسقاء پڑھی جائے جبکہ جمہور کا موقف ہے کہ نماز کا اہتمام پہلے ہونا چاہیے۔ ہمارے نزدیک دونوں طرح جائز ہے۔ (فتح الباري:862/2)