تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے نماز قصر کے تحت نمازوں کا جمع کرنا بیان کیا ہے، کیونکہ جمع کرنے میں بھی ایک لحاظ سے قصر ہے کہ ان میں ایک نماز کے وقت دوسری نماز کو پڑھ لیا جاتا ہے، یعنی وقت کے اعتبار سے جمع کرنا بھی قصر ہے۔ (فتح الباري:749/2) نماز کی ادائیگی کے وقت سے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا ﴿١٠٣﴾) (النساء 103:4) ’’بلاشبہ اہل ایمان پر نماز اس کے مقررہ وقت میں فرض کی گئی ہے۔‘‘ اس لیے نماز کو بروقت ادا کرنا ہی ضروری ہے۔ لیکن بعض اسباب کی بنا پر ایک نماز کو دوسری نماز کے ساتھ جمع بھی کیا جا سکتا ہے۔ اسے شرعی اصطلاح میں دو نمازوں کو جمع کرنا کہتے ہیں۔ اس طرح جمع کرنے کی دو اقسام ہیں: ٭ جمع صوری: ایک نماز کو اس کے آخری وقت میں اور دوسری کو اول وقت میں ادا کرنا، یعنی دونوں نمازیں اپنے اپنے وقت میں ادا ہوں۔ ٭ جمع حقیقی: ایک نماز کے وقت میں دوسری نماز ادا کرنا جمع حقیقی کہلاتا ہے۔ اس کی دو قسمیں ہیں: ٭ جمع تقدیم: پہلی نماز کے وقت میں دوسری نماز ادا کرنا جیسا کہ ظہر کے وقت میں عصر اور مغرب کے وقت میں عشاء پڑھنا۔ ٭ جمع تاخیر: دوسری نماز کے وقت میں پہلی نماز ادا کرنا جیسا کہ عصر کے وقت میں ظہر اور عشاء کے وقت میں مغرب ادا کرنا۔ دوران سفر دونوں طریقوں سے نمازوں کو جمع کیا جا سکتا ہے۔ سفر کے علاوہ بارش، سخت آندھی، ٹھنڈی ہوا، بیماری یا کسی اہم ضرورت کے پیش نظر بھی دو نمازوں کو جمع کیا جا سکتا ہے، لیکن بلاوجہ نمازوں کو جمع کرنا درست نہیں۔ بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے بلاوجہ نمازوں کو جمع کرنا کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے۔ ترمذی میں حضرت ابن عباس ؓ سے مرفوعاً بھی اس قسم کی روایت مروی ہے (جامع الترمذي، الصلاة، حدیث:186) لیکن وہ حنش بن قیس راوی کی وجہ سے ناقابل اعتماد ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے عرفہ میں ظہر کے وقت عصر کو اور مزدلفہ میں عشاء کے وقت مغرب کو ادا کیا تھا۔ (سنن أبي داود، صفة حجة النبِي، حدیث:1906)
(2) امام بخاری ؒ نے مذکورہ عنوان کے تحت تین احادیث پیش کی ہیں: پہلی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جب سفر میں عجلت ہوتی تو مغرب اور عشاء کو جمع فرما لیتے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ سفر کو جاری رکھتے ہوئے ظہر اور عصر اسی طرح مغرب اور عشاء کو جمع کرتے۔ آخری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ مطلق طور پر سفر میں دو نمازوں کو جمع کر لیتے قطع نظر اس سے کہ سفر کے لیے عجلت ہوتی یا سفر کو جاری رکھے ہوئے ہوتے یا کہیں پڑاؤ کیا ہوتا۔ امام بخارى ؒ کا رجحان یہی ہے کہ مطلق طور پر سفر میں دو نمازوں کو جمع کیا جا سکتا ہے۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ مطلق طور پر صرف میدان عرفات اور مزدلفہ میں دو نمازوں کو جمع کیا جا سکتا ہے۔ ان کے علاوہ جمع حقیقی کی کوئی صورت جائز نہیں۔ مذکورہ احادیث کے پیش نظر یہ موقف محل نظر ہے۔
(3) آخر میں امام بخاری ؒ نے متابعت کا ذکر کیا ہے۔ علی بن مبارک کی متابعت کو ابو نعیم نے مستخرج میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:749/2) اور حرب بن شداد کی متابعت کو خود امام بخاری ؒ نے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاري، التقصیر، حدیث:1110) واضح رہے کہ امام بخاری ؒ مغرب اور عشاء میں جمع تقدیم اور جمع تاخیر دونوں کے قائل ہیں۔