تشریح:
(1) امام بخاری ؒ نے اس عنوان اور حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ جب کئی متعارض امور جمع ہو جائیں تو اہم اور ضروری امر کو اختیار کرنا چاہیے۔ حضرت جریج کو چاہیے تھا کہ وہ نماز کو مختصر یا ختم کر کے اپنی والدہ کی آواز پر لبیک کہتے۔ انہوں نے اس امر میں کوتاہی کی تو ان کی والدہ کی بددعا مؤثر ثابت ہوئی۔ نماز تو بعد میں بھی ادا ہو سکتی تھی، لیکن ماں کی مامتا کو اولین ترجیح دینا ضروری تھا۔ چونکہ ان پر جو الزام لگا وہ بھی انتہائی سنگین تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے اس کی براءت کا سبب پیدا فرمایا۔ جب نومولود بچے نے ان کے پاک دامن ہونے کی شہادت دی تو معلوم ہوا کہ وہ حق و صداقت کے پیکر تھے۔
(2) امام بخاری ؒ نے اس عنوان اور حدیث سے قطعاً یہ استدلال نہیں کیا کہ دوران نماز میں گفتگو کرنا مباح ہے جبکہ خود امام بخاری اس کے ممنوع ہونے پر ایک عنوان قائم کر چکے ہیں۔ (صحیح البخاري، العمل في الصلاة، باب:2) رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت ہے کہ اگر آپ کسی انسان کو آواز دیں جبکہ وہ نماز پڑھ رہا ہو تو اس پر لازم ہے کہ نماز توڑ کر آپ کی آواز پر لبیک کہے جیسا کہ حدیث میں ہے۔ (صحیح البخاري، التفسیر، حدیث:4847) اس مقام پر دو مسئلے ہیں جن میں اختلاف ہے۔ امام بخاری ؒ نے اس اختلاف کی وجہ سے دو ٹوک فیصلہ نہیں کیا۔ پہلا مسئلہ یہ ہے کہ ایسے حالات میں ماں کی پکار پر لبیک کہنا ضروری ہے یا نہیں؟ دوسرا مسئلہ اگر لبیک کہنا ضروری ہے تو اس سے نماز باطل ہو گی یا نہیں؟ (فتح الباري:102/3) اس حدیث کے متعلق دیگر مباحث ہم صحیح البخاری، کتاب أحاديث الأنبياء، حدیث: 3436 کے تحت ذکر کریں گے۔