تشریح:
(1) یہ واقعہ 65 ہجری میں پیش آیا جبکہ خوارج نے نافع بن ازرق کی سرکردگی میں اہل بصرہ کا محاصرہ کر لیا تھا۔ حضرت ابو برزہ اسلمی ؓ دریائے دجیل کے کنارے نماز عصر پڑھ رہے تھے اور دوران نماز میں ان کی سواری بدکی اور قبلے کی جانب چلنے لگی۔ حضرت ابو برزہ بھی اس کے ساتھ ہو لیے۔ آخر کار اسے ساتھ لے کر الٹے پاؤں واپس آئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی نماز جاری رکھی تھی وگرنہ وہ الٹے پاؤں واپس آنے کا تکلف نہ کرتے۔ اس واقعے سے ان لوگوں کی تردید ہوتی ہے جو اس سلسلے میں سختی کرتے اور کہتے ہیں کہ ایسے حالات میں جانور کو چھوڑ دینا چاہیے، لیکن اپنی نماز کو قطع نہ کیا جائے۔ اس سے فقہا نے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے کہ اگر کسی کو اپنے مال و اسباب کے تلف ہونے کا اندیشہ ہو تو نماز قطع کرنا جائز ہے۔ (فتح الباري:106/3)
(2) ابن بطال نے کہا ہے کہ دوران نماز میں اگر کسی کی سواری دوڑ جائے تو وہ نماز توڑ کر اس کا پیچھا کر سکتا ہے۔ اسی طرح جس نے دوران نماز اپنے جانور کی ہلاکت کا خطرہ محسوس کیا یا کسی بچے کو دیکھا کہ وہ کنویں کے کنارے کھڑا ہے اور اس میں گرنے کے قریب ہے یا کسی اندھے کے گڑھے میں گرنے کا اندیشہ محسوس کیا اور وہ مذکورہ امور کی مدافعت پر قادر ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ نماز توڑ کر ان کی حفاظت کرے۔ یہ ناممکن ہے کہ حضرت ابو برزہ اسلمی ؓ ایسا کریں اور انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے متعلق کوئی مشاہدہ نہ کیا ہو۔ ابن تین نے کہا ہے کہ اگر کوئی دوران نماز میں گراں قدر چیز کے ضائع ہونے کا خطرہ محسوس کرے تو اس کے لیے نماز توڑنا جائز ہے اور اگر معمولی چیز کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہو تو نماز میں مصروف رہنا بہتر ہے۔ (عمدة القاري:615/5)