صحیح بخاری
3. کتاب: علم کے بیان میں
45. باب: اس بیان میں کہ رمی جمار(یعنی حج میں پتھر پھینکنے) کے وقت مسئلہ پوچھنا جائز ہے۔
صحيح البخاري
3. كتاب العلم
45. بَابُ السُّؤَالِ وَالفُتْيَا عِنْدَ رَمْيِ الجِمَارِ
Sahi-Bukhari
3. Knowledge
45. Chapter: To ask about a religious matter and to give a religious verdict (at Mina during Hajj) while doing the Rami of Jimar (throwing of pebbles at the Jimar in Mina during Hajj)
باب: اس بیان میں کہ رمی جمار(یعنی حج میں پتھر پھینکنے) کے وقت مسئلہ پوچھنا جائز ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Knowledge
(Chapter: To ask about a religious matter and to give a religious verdict (at Mina during Hajj) while doing the Rami of Jimar (throwing of pebbles at the Jimar in Mina during Hajj))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
127.
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ کو جمرے کے قریب بایں حالت دیکھا کہ آپ سے سوالات کیے جا رہے ہیں، چنانچہ ایک شخص نے کہا: یا رسول اللہ! میں نے رمی سے پہلے قربانی کر لی ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’اب رمی کر لو، کوئی حرج نہیں۔‘‘ دوسرے نے دریافت کیا: یا رسول اللہ! میں نے قربانی سے پہلے سر منڈوا لیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’اب قربانی کر لو، کوئی حرج نہیں۔‘‘ الغرض کسی بھی چیز کی تقدیم و تاخیر کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے اس کا جواب دیا: ’’اب کر لو، کوئی حرج نہیں۔‘‘
تشریح:
1۔حدیث میں ہے کہ بیت اللہ کا طواف، صفا مروہ کی سعی اور رمی جمار ذکر اللہ کی اقامت کے لیے ہیں۔(سنن ابی داؤد، المناسك، حدیث: 1888)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ اس حدیث کے پیش نظر رمی جمار کے وقت ایک آدمی اللہ کے ذکر میں مصروف ہے ایسی حالت میں سوال و جواب کی اجازت ہے یا نہیں؟ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مذکورہ حدیث سے اس کا جواز ثابت فرمایا ہے دراصل ذکر کی دو قسمیں ہیں: ایک یہ کہ اس میں مشغولیت کے وقت دوسری کسی چیز کی طرف توجہ دینا جائز نہیں جیسا کہ نماز وغیرہ اور دوسری قسم ایسی ہے کہ اس میں مصروفیت کے دوران میں نہ گفتگو کی ممانعت ہے اور نہ دوسری طرف توجہ دینا ہی ناجائز ہے جیسے رمی جمار اور طواف وغیرہ۔ اس مقام پر حج کے مسائل بیان کرنا مقصود نہیں کیونکہ وہ کتاب الحج میں بیان ہوں گے۔ اسے کتاب العلم میں اس غرض سے بیان کیا گیا ہے تاکہ علم کا مقام اور مرتبہ واضح کیا جائے۔یعنی علم کی اتنی اہمیت ہے کہ اللہ کا ذکر قطع کرکے علمی سوالات کا جواب دیا جا سکتا ہے، لیکن حدیث میں راوی کا بیان بایں الفاظ ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جمرے کے پاس دیکھا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت رمی جمار کر رہے تھے اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جمرے کے پاس تشریف فرماہونا دو صورتوں میں ممکن ہے:یا تو آپ رمی فرما رہے ہوں گے یا رمی کے بعد دعا میں مشغول ہوں گےاور دعا بھی عبادت ہے، اس لیے آپ سے سوال کسی بھی صورت میں کیا گیا ہو، دوران عبادت میں کیا گیا ہے اور آپ نے سوال کرنے والوں سے یہ نہیں فرمایا کہ میں اس وقت عبادت میں مصروف ہوں بلکہ آپ نے ان کے جوابات دیے ہیں۔ لہٰذا یہ ثابت ہوا کہ جن عبادات میں گفتگو کی اجازت ہے اگر اس دوران میں عالم سے سوال کیا جائے تو اسے جواب دینے کی اجازت ہے۔2۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے علم میں کس قدر گیرائی اور گہرائی ہے اور ثقاہت و فقاہت میں آپ کا مقام کس قدر اونچا ہے! لیکن حسد و بغض کا ستیاناس ہو، یہ انسان کو بالکل اندھا کردیتا ہے چنانچہ امین احسن اصلاحی نے تدبر حدیث کی آڑ میں اپنے خبث باطن کا اظہار بایں الفاظ کیا ہے۔’’یہ باب ایسا ہے کہ جس پر ہمارے محدثین حضرات نے بھی سر پیٹا ہے کہ یہ باب بالکل فضول باندھا گیا ہے۔‘‘( تدبر حدیث: 1/223) البتہ علامہ اسماعیلی نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ پر اعتراض کیا ہے کہ اگر اتنی اتنی بات پر عنوان قائم کرنا ہے تو پھر اس حدیث پر تین عنوان ہونے چاہیے تھے۔1۔باب السوال عندرمی الجمار۔2۔باب السوال والمسئول علی الراحلة 3۔باب السوال یوم النحر- اس اعتراض کا جواب حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے دیا ہے کہ ان تین تراجم میں سے ایک عنوان تو پہلے آچکا ہے یعنی سواری وغیرہ پر سوار رہ کرفتوی دینا۔ (باب رقم23)وہاں بھی یہی حدیث پیش فرمائی تھی۔ پھر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مکان سے صرف نظر کرتے ہوئے زمان ووقت کا لحاظ رکھا اور عنوان قائم کردیا۔ اس خصوصیت کی وجہ یہ ہے کہ عیدکا دن ہے۔ اس مناسبت سے کسی شخص کے دل میں یہ خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ شاید عید کے دن لہو ولهب کی وجہ سے علمی سوال کرنے کی اجازت نہ ہو۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ اس دن بھی سوالات و جوابات کا سلسلہ قائم کیا جا سکتا۔(فتح الباری: 1/297)ہماری وضاحت کے بعد بھی اگر کسی نے سرپیٹنا ہے تو اپنا پیٹے ، اپنی عقل و دانش کا ماتم کرے، محدثین کرام پر الزام تراشی یا تہمت زنی کی کیا ضرورت ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
126
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
124
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
124
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
124
تمہید کتاب
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے علم کی طرف توجہ دلائی ہے کیونکہ علم، جہالت کی ضد ہے اور جہالت تاریکی کا نام جس میں واضح چیزیں بھی چھپی رہتی ہیں اور جب علم کی روشنی نمودار ہوتی ہے تو چھپی چیزیں بھی واضح ہونے لگتی ہیں۔ انھوں نے علم کی تعریف سے تعرض نہیں کیا، اس لیے کہ علم کو تعریف کی ضرورت نہیں۔عطرآں باشد کہ خود بیویدانہ کہ عطاربگوید نیز اشیاء کی حقیقت و ماہیت بیان کرنا اس کتاب کا موضوع نہیں ہے۔ایمانیات کے بعد کتاب العلم کا افتتاح کیا کیونکہ ایمان کے بعد دوسرا درجہ علم کا ہے۔اس کا ارشاد کلام الٰہی سے بھی ملتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:(يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ)( المجادلۃ 58۔11۔)"اللہ تعالیٰ تم میں سے اہل ایمان اور اہل علم کے درجات بلند کردے گا۔"اس آیت کریمہ میں پہلے اہل ایمان اور پھر اہل علم کا تذکرہ ہے چونکہ ایمان کی پابندی ہر مکلف پر سب سے پہلے عائد ہوتی ہے نیز ایمان سب سے افضل و اعلیٰ اور ہر علمی اور عملی خیر کا اساسی پتھر ہے، اس لیے علم سے پہلے ایمان کا تذکرہ ضروری تھا۔ ایمانیات کے بعد کتاب العلم لانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جو چیزیں ایمان میں مطلوب ہیں اور جن پر عمل کرنے سے ایمان میں کمال پیدا ہوتا ہے۔ ان کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں۔ پھر ایمان اور علم میں ایک گہرا رشتہ بھی ہے وہ یہ کہ علم کے بغیر ایمان میں روشنی اور بالیدگی پیدا نہیں ہوتی اور نہ ایمان کے بغیر علوم و معاررف ہی لائق اعتنا ہیں۔کتاب العلم کو دیگر ابواب سے پہلے بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دیگر ابواب کا تعلق انسان کی عملی زندگی سے ہے اور اللہ کے ہاں اس عمل کو قبولیت کا درجہ حاصل ہوگا جوعلی وجہ البصیرت کیا جائے گا۔واضح رہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دنیاوی علوم میں مہارت پیدا کرنا کوئی پسندیدہ اور کار آمد مشغلہ نہیں کیونکہ ان کا فائدہ عارضی اور چند روز ہے۔ ان کے نزدیک اصل علم قرآن و حدیث کا علم ہے۔ پھر ان دونوں کے متعلق اللہ کی عطا کردہ فہم و فراست ہے کیونکہ ایسے معارف کا نفع مستقل اور پائیدار ہے پھر اگر اس علم کو اخلاص و عمل سے آراستہ کر لیا جائے تو آخرت میں ذریعہ نجات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی اکثریت کے متعلق بایں الفاظ شکوہ کیا ہے:(يَعْلَمُونَ ظَاهِرًا مِّنَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ الْآخِرَةِ هُمْ غَافِلُونَ)"وہ تو دنیا وی زندگی کے ظاہر ہی کو جانتے ہیں۔اور اخروی معاملات سے تو بالکل ہی بے خبر ہیں۔"( الروم :30۔7۔)اس بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب العلم میں حقیقی علم کی اہمیت و حیثیت ،افادیت ،علم حدیث، اس کے آداب وفضائل ، اس کی حدود و شرائط ، آداب تحمل حدیث ،آداب تحدیث ، صیغ ادا، رحلات علمیہ، کتابت حدیث،آداب طالب ، آداب شیخ ، فتوی ، آداب فتوی اور ان کے علاوہ بے شمار علمی حقائق و معارف کو بیان کیا ہے جن کی مکمل تفصیل اس تمہیدی گفتگو میں بیان نہیں کی جا سکتی۔ آئندہ صفحات میں موقع و محل کے مطابق ایسے علمی جواہرات کی وضاحت کی جائے گی۔ قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ ان تمہیدی گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کتاب العلم کا مطالعہ کریں۔
حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ کو جمرے کے قریب بایں حالت دیکھا کہ آپ سے سوالات کیے جا رہے ہیں، چنانچہ ایک شخص نے کہا: یا رسول اللہ! میں نے رمی سے پہلے قربانی کر لی ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’اب رمی کر لو، کوئی حرج نہیں۔‘‘ دوسرے نے دریافت کیا: یا رسول اللہ! میں نے قربانی سے پہلے سر منڈوا لیا ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’اب قربانی کر لو، کوئی حرج نہیں۔‘‘ الغرض کسی بھی چیز کی تقدیم و تاخیر کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے اس کا جواب دیا: ’’اب کر لو، کوئی حرج نہیں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
1۔حدیث میں ہے کہ بیت اللہ کا طواف، صفا مروہ کی سعی اور رمی جمار ذکر اللہ کی اقامت کے لیے ہیں۔(سنن ابی داؤد، المناسك، حدیث: 1888)امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ اس حدیث کے پیش نظر رمی جمار کے وقت ایک آدمی اللہ کے ذکر میں مصروف ہے ایسی حالت میں سوال و جواب کی اجازت ہے یا نہیں؟ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مذکورہ حدیث سے اس کا جواز ثابت فرمایا ہے دراصل ذکر کی دو قسمیں ہیں: ایک یہ کہ اس میں مشغولیت کے وقت دوسری کسی چیز کی طرف توجہ دینا جائز نہیں جیسا کہ نماز وغیرہ اور دوسری قسم ایسی ہے کہ اس میں مصروفیت کے دوران میں نہ گفتگو کی ممانعت ہے اور نہ دوسری طرف توجہ دینا ہی ناجائز ہے جیسے رمی جمار اور طواف وغیرہ۔ اس مقام پر حج کے مسائل بیان کرنا مقصود نہیں کیونکہ وہ کتاب الحج میں بیان ہوں گے۔ اسے کتاب العلم میں اس غرض سے بیان کیا گیا ہے تاکہ علم کا مقام اور مرتبہ واضح کیا جائے۔یعنی علم کی اتنی اہمیت ہے کہ اللہ کا ذکر قطع کرکے علمی سوالات کا جواب دیا جا سکتا ہے، لیکن حدیث میں راوی کا بیان بایں الفاظ ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جمرے کے پاس دیکھا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت رمی جمار کر رہے تھے اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جمرے کے پاس تشریف فرماہونا دو صورتوں میں ممکن ہے:یا تو آپ رمی فرما رہے ہوں گے یا رمی کے بعد دعا میں مشغول ہوں گےاور دعا بھی عبادت ہے، اس لیے آپ سے سوال کسی بھی صورت میں کیا گیا ہو، دوران عبادت میں کیا گیا ہے اور آپ نے سوال کرنے والوں سے یہ نہیں فرمایا کہ میں اس وقت عبادت میں مصروف ہوں بلکہ آپ نے ان کے جوابات دیے ہیں۔ لہٰذا یہ ثابت ہوا کہ جن عبادات میں گفتگو کی اجازت ہے اگر اس دوران میں عالم سے سوال کیا جائے تو اسے جواب دینے کی اجازت ہے۔2۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے علم میں کس قدر گیرائی اور گہرائی ہے اور ثقاہت و فقاہت میں آپ کا مقام کس قدر اونچا ہے! لیکن حسد و بغض کا ستیاناس ہو، یہ انسان کو بالکل اندھا کردیتا ہے چنانچہ امین احسن اصلاحی نے تدبر حدیث کی آڑ میں اپنے خبث باطن کا اظہار بایں الفاظ کیا ہے۔’’یہ باب ایسا ہے کہ جس پر ہمارے محدثین حضرات نے بھی سر پیٹا ہے کہ یہ باب بالکل فضول باندھا گیا ہے۔‘‘( تدبر حدیث: 1/223) البتہ علامہ اسماعیلی نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ پر اعتراض کیا ہے کہ اگر اتنی اتنی بات پر عنوان قائم کرنا ہے تو پھر اس حدیث پر تین عنوان ہونے چاہیے تھے۔1۔باب السوال عندرمی الجمار۔2۔باب السوال والمسئول علی الراحلة 3۔باب السوال یوم النحر- اس اعتراض کا جواب حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے دیا ہے کہ ان تین تراجم میں سے ایک عنوان تو پہلے آچکا ہے یعنی سواری وغیرہ پر سوار رہ کرفتوی دینا۔ (باب رقم23)وہاں بھی یہی حدیث پیش فرمائی تھی۔ پھر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مکان سے صرف نظر کرتے ہوئے زمان ووقت کا لحاظ رکھا اور عنوان قائم کردیا۔ اس خصوصیت کی وجہ یہ ہے کہ عیدکا دن ہے۔ اس مناسبت سے کسی شخص کے دل میں یہ خیال پیدا ہو سکتا ہے کہ شاید عید کے دن لہو ولهب کی وجہ سے علمی سوال کرنے کی اجازت نہ ہو۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود یہ ہے کہ اس دن بھی سوالات و جوابات کا سلسلہ قائم کیا جا سکتا۔(فتح الباری: 1/297)ہماری وضاحت کے بعد بھی اگر کسی نے سرپیٹنا ہے تو اپنا پیٹے ، اپنی عقل و دانش کا ماتم کرے، محدثین کرام پر الزام تراشی یا تہمت زنی کی کیا ضرورت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن ابی سلمہ نے زہری کے واسطے سے روایت کیا، انھوں نے عیسیٰ بن طلحہ سے، انھوں نے عبداللہ بن عمروؓ سے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو رمی جمار کے وقت دیکھا آپ ﷺ سے پوچھا جا رہا تھا تو ایک شخص نے عرض کیا، یا رسول اللہ! میں نے رمی سے قبل قربانی کر لی؟ آپ ﷺ نے فرمایا (اب) رمی کر لو کچھ حرج نہیں ہوا۔ دوسرے نے کہا، یا رسول اللہ! میں نے قربانی سے پہلے سر منڈا لیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا (اب) قربانی کر لو کچھ حرج نہیں۔ (اس وقت) جس چیز کے بارے میں جو آگے پیچھے ہو گئی تھی، آپ سے پوچھا گیا، آپ ﷺ نے یہ ہی جواب دیا (اب) کر لو کچھ حرج نہیں۔
حدیث حاشیہ:
(تعصب کی حد ہوگئی) امام بخاری قدس سرہ کا مقصد ظاہر ہے کہ رمی جمار کے وقت بھی مسائل دریافت کرنا جائز ہے۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو بھی سوالات کئے گئے الدین یسر کے تحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقدیم وتاخیر کونظرانداز کرتے ہوئے فرمادیاکہ جو کام چھوٹ گئے ہیں ان کو اب کرلو، توکوئی حرج نہیں ہے۔ بات بالکل سیدھی اور صاف ہے مگر تعصب کا براہو صاحب انوار الباری کو ہر جگہ یہی نظر آتا ہے کہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ یہاں بھی محض احناف کی تردید کے لیے ایسا لکھ رہے ہیں۔ ان کے خیال ناقص میں گویا جامع صحیح ازاول تاآخر محض احناف کی تردید کے لیے لکھی گئی ہے، آپ کے الفاظ یہ ہیں: ’’ احقر (صاحب انوارالباری) کی رائے ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ حسب عادت جس رائے کواختیار کرتے ہیں چونکہ بقول حضرت شاہ صاحب اسی کے مطابق احادیث لاتے ہیں اور دوسری جانب کونظر انداز کردیتے ہیں۔ اسی لیے ترتیب افعال حج کے سلسلہ میں چونکہ وہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی رائے سے مخالف ہیں اس لیے اپنے خیال کی تائید میں جگہ جگہ حدیث "الباب افعل ولاحرج" کو بھی لائے ہیں۔ ‘‘ (انوارالباری،جلد4،ص: 104) معلوم ہوتا ہے کہ صاحب انوارالباری کو حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کے دل کا پورا حال معلوم ہے، اسی لیے تووہ ان کے ضمیر پر یہ فتویٰ لگارہے ہیں۔ اسلام کی تعلیم تھی کہ مسلمان آپس میں حسن ظن سے کام لیا کریں، یہاں یہ سوءظن ہے۔ استغفراللہ۔آگے صاحب انوارالباری مزید وضاحت فرماتے ہیں:’’ آج اس ہی قسم کے تشدّد سے ہمارے غیرمقلد بھائی اور حرمین شریفین کے نجدی علماءائمہ حنفیہ کے خلاف محاذ بناتے ہیں، حنفیہ کو چڑانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی یک طرفہ احادیث پیش کیا کرتے ہیں۔ ‘‘ (حوالہ مذکور) صاحب انوارالباری کے اس الزام پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے قاعدہ ہے "المرء یقیس علی نفسه" (انسان دوسروں کو بھی اپنے نفس پر قیاس کیا کرتا ہے) چونکہ اس تشدد اور چڑانے کا منظر کتاب انوارالباری کے بیشتر مقامات پر ظاہر وباہرہے اس لیے وہ دوسروں کو بھی اسی عینک سے دیکھتے ہیں، حالانکہ واقعات بالکل اس کے خلاف ہیں۔ مقام صدشکرہے کہ یہاں آپ نے اپنی سب سے معتوب جماعت اہل حدیث کو لفظ ’’غیرمقلد بھائی‘‘ سے تویادفرمایا۔ اللہ کرے کہ غیرمقلدوں کو یہ بھائی بنانا برادران یوسف کی نقل نہ ہو اور ہمارا تویقین ہے کہ ایسا ہرگز نہ ہوگا۔ اللہ پاک ہم سب کو ناموس اسلام کی حفاظت کے لیے اتفاق باہمی عطا فرمائے۔ سہواً ایسے موقع پر اتنی تقدیم وتاخیر معاف ہے۔ حدیث کا یہی منشا ہے، حنفیہ کو چڑانا حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا منشاء نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Amar: I saw the Prophet (ﷺ) near the Jamra and the people were asking him questions (about religious problems). A man asked, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I have slaughtered the Hadi (animal) before doing the Rami." The Prophet (ﷺ) replied, "Do the Rami (now) and there is no harm." Another person asked, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I got my head shaved before slaughtering the animal." The Prophet (ﷺ) replied, "Do the slaughtering (now) and there is no harm." So on that day, when the Prophet (ﷺ) was asked about anything as regards the ceremonies of Hajj performed before or after its due time his reply was, "Do it (now) and there is no harm."