Sahi-Bukhari:
Funerals (Al-Janaa'iz)
(Chapter: How to shroud a Muhrim)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
1281.
حضرت ابن عباس ؓ ہی سے رویت ہے، انھوں نے فرمایا:ایک شخص نبی کریم ﷺ کے ہمراہ مقام عرفہ میں ٹھہرا ہواتھا۔ وہ ا پنی سواری سے گرگیا۔ ایوب راوی نےکہا:فوقصته اور عمرو نے کہا: فاقصعته، یعنی سواری نے اس کی گردن توڑ دی اور وہ مرگیا۔ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا: ’’اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور دو کپڑوں میں کفناؤ۔اسے خوشبو نہ لگاؤ اور نہ اس کاسر ہی ڈھانپو، کیونکہ یہ قیامت کے دن اٹھے گا تو تلبیہ پکاررہا ہوگا۔‘‘ ایوب راوی نے (مضارع) يلبي اور عمرو نے(اسم فاعل) ملبيا کے الفاظ بیان کیے ہیں۔
تشریح:
(1) مرنے کے بعد عبادات و اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے: ’’جب آدمی مر جاتا ہے تو اس کا عمل ختم ہو جاتا ہے۔‘‘ احرام بھی ایک عمل ہے جو مرنے سے ختم ہو جاتا ہے لیکن رسول اللہ ﷺ نے حکمی طور پر اسے باقی رکھا ہے اور اس پر ان پابندیوں کو جاری رہنے دیا ہے جو محرم آدمی کی زندگی میں ہوتی ہیں، مثلاً: آپ نے حکم دیا کہ اس کے چہرے اور سر کو نہ ڈھانپا جائے اور اسے خوشبو وغیرہ نہ لگائی جائے۔ امام بخاری ؒ نے اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے ثابت کیا ہے کہ محرم انسان اگر مر جائے تو حکمی طور پر اس کی حالتِ احرام کو باقی رکھا جائے۔ اسے عام انسانوں کی طرح خوشبو لگانے اور سر ڈھانپنے کی اجازت نہیں۔ حدیث سے یہ مسئلہ واضح طور پر ثابت ہوتا ہے۔ (2) بعض حضرات نے حدیث میں مذکور واقعے کو خصوصیت پر محمول کیا ہے اور محرم کے لیے خوشبو لگانے اور سر ڈھانپنے کا جواز ثابت کیا ہے، لیکن خصوصیت والی بات بلادلیل ہے۔ محدثین کا اتفاق ہے کہ محرم انسان کو کفن دینے کا طریقہ وہی ہے جو حدیث میں بیان ہوا ہے۔ سنن نسائی کی روایت میں ہے کہ محرم کو احرام کی دو چادروں میں کفن دو، اسے قیامت کے دن حالتِ احرام ہی میں اٹھایا جائے گا۔ (سنن النسائي، الجنائز، حدیث: 1905)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1236
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
1268
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
1268
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
1268
تمہید کتاب
لفظ جنائز، جنازه کی جمع ہے جس کے دو معنی ہیں: اگر جیم کے کسرہ (زیر) کے ساتھ ہو تو اس سے مراد میت ہے اور اگر جیم کے فتحہ (زبر) کے ساتھ پڑھا جائے تو اس کے معنی اس چارپائی یا تابوت کے ہیں جس پر میت پڑی ہو۔ امام نووی اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لفظ جنائز میں جیم پر صرف فتحہ متعین کیا ہے۔ لغوی طور پر اس کا ماخذ لفظ جنز ہے جسے چھپانے کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ جو انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک دن موت کی آغوش میں جانا ہے۔ اگرچہ کسی انسان کو اپنی موت کے وقت کا علم نہیں، تاہم ہر شخص کی موت کا ایک معین اور اٹل وقت ہے، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے لمحہ بھر کے لیے بھی غافل نہ ہو، اسے ہمیشہ یاد رکھے اور آخرت کے اس سفر کی تیاری کرتا رہے جسے اس نے اکیلے ہی طے کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عافیت کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہم مرض و موت اور دیگر مصائب و آلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر عمل کرتے رہیں۔ یہ ایک حقیقت اور تجربہ ہے کہ ایسا کرنے سے قلب و روح کو بڑا سکون نصیب ہوتا ہے اور آپ کی تعلیم و رہنمائی زخمی دل کا مرہم اور صدمے کی دوا بن جاتی ہے۔ علاوہ ازیں موت تو لقاء الٰہی (اللہ کی ملاقات) کا وسیلہ ہونے کی حیثیت سے بندہ مومن کے لیے محبوب و مطلوب بن جاتی ہے۔ یہ تو شرعی ہدایات کی دنیوی اور نقد برکات ہیں، آخرت میں وہ سب کچھ سامنے آئے گا جس کا آیات و احادیث میں وعدہ کیا گیا ہے۔محدثین کا عام دستور ہے کہ وہ کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کے تحت مرض اور دیگر مصائب و آلام اور حوادث، مرض الموت اور موت کے وقت شرعی طرز عمل، پھر غسل میت، تجہیز و تکفین، نماز جنازہ، دفن، تعزیت یہاں تک کہ زیارت قبور سے متعلقہ احادیث لاتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اپنے اسلاف کا اتباع کرتے ہوئے کتاب الصلاۃ کے آخر میں کتاب الجنائز کو بیان کیا ہے کیونکہ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں: ایک حالت زندگی سے متعلق ہے اور دوسری کا تعلق موت کے بعد سے ہے۔ اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکام وابستہ ہیں۔ عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ جب زندگی کے متعلق اہم عبادت نماز سے فراغت ہوئی تو موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں دو صد دس (210) احادیث بیان کی ہیں جن میں چھپن (56) معلق اور متابع ہیں اور باقی متصل اسانید سے ذکر کی گئی ہیں۔ ان میں سے تقریبا ایک سو نو (109) احادیث مکرر اور باقی ایک سو ایک (101) احادیث خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے چوبیس (24) احادیث کے علاوہ دیگر بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔ مرفوع متصل احادیث کے علاوہ اڑتالیس (48) آثار ہیں جو مختلف صحابہ کرام اور تابعین عظام سے مروی ہیں۔ ان میں سے چھ (6) موصول اور باقی معلق ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر تقریبا اٹھانوے (98) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جو افادیت و معنویت کے اعتبار سے بے نظیر اور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان عنوانات کے ذریعے سے امام بخاری رحمہ اللہ نے کئی ایک متعارض احادیث میں تطبیق دی اور ان کی تشریح فرمائی ہے، اس کے علاوہ محدثانہ اسرار و رموز بھی بیان کیے ہیں جن کی ہم ان کے مقامات پر وضاحت کریں گے۔بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے جنازہ اور متعلقات جنازہ کے متعلق مکمل ہدایات دی ہیں، بلکہ قبر اور بعد القبر کے حقائق سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ان تمہیدی گزارشات کو سامنے رکھتے ہوئے احادیث کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے فکروعمل کو اپنے ہاں شرف قبولیت سے نوازے۔آمين
حضرت ابن عباس ؓ ہی سے رویت ہے، انھوں نے فرمایا:ایک شخص نبی کریم ﷺ کے ہمراہ مقام عرفہ میں ٹھہرا ہواتھا۔ وہ ا پنی سواری سے گرگیا۔ ایوب راوی نےکہا:فوقصته اور عمرو نے کہا: فاقصعته، یعنی سواری نے اس کی گردن توڑ دی اور وہ مرگیا۔ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا: ’’اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور دو کپڑوں میں کفناؤ۔اسے خوشبو نہ لگاؤ اور نہ اس کاسر ہی ڈھانپو، کیونکہ یہ قیامت کے دن اٹھے گا تو تلبیہ پکاررہا ہوگا۔‘‘ ایوب راوی نے (مضارع) يلبي اور عمرو نے(اسم فاعل) ملبيا کے الفاظ بیان کیے ہیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) مرنے کے بعد عبادات و اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے: ’’جب آدمی مر جاتا ہے تو اس کا عمل ختم ہو جاتا ہے۔‘‘ احرام بھی ایک عمل ہے جو مرنے سے ختم ہو جاتا ہے لیکن رسول اللہ ﷺ نے حکمی طور پر اسے باقی رکھا ہے اور اس پر ان پابندیوں کو جاری رہنے دیا ہے جو محرم آدمی کی زندگی میں ہوتی ہیں، مثلاً: آپ نے حکم دیا کہ اس کے چہرے اور سر کو نہ ڈھانپا جائے اور اسے خوشبو وغیرہ نہ لگائی جائے۔ امام بخاری ؒ نے اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے ثابت کیا ہے کہ محرم انسان اگر مر جائے تو حکمی طور پر اس کی حالتِ احرام کو باقی رکھا جائے۔ اسے عام انسانوں کی طرح خوشبو لگانے اور سر ڈھانپنے کی اجازت نہیں۔ حدیث سے یہ مسئلہ واضح طور پر ثابت ہوتا ہے۔ (2) بعض حضرات نے حدیث میں مذکور واقعے کو خصوصیت پر محمول کیا ہے اور محرم کے لیے خوشبو لگانے اور سر ڈھانپنے کا جواز ثابت کیا ہے، لیکن خصوصیت والی بات بلادلیل ہے۔ محدثین کا اتفاق ہے کہ محرم انسان کو کفن دینے کا طریقہ وہی ہے جو حدیث میں بیان ہوا ہے۔ سنن نسائی کی روایت میں ہے کہ محرم کو احرام کی دو چادروں میں کفن دو، اسے قیامت کے دن حالتِ احرام ہی میں اٹھایا جائے گا۔ (سنن النسائي، الجنائز، حدیث: 1905)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے حماد بن زید نے، ان سے عمرو اور ایوب نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس ؓ نے کہ ایک شخص نبی کریم ﷺ کے ساتھ میدان عرفات میں کھڑا ہوا تھا، اچانک وہ اپنی سواری سے گر پڑا۔ ایوب نے کہا اونٹنی نے اس کی گردن توڑ ڈالی۔ اور عمرو نے یوں کہا کہ اونٹنی نے اس کو گرتے ہی مار ڈالا اور اس کا انتقال ہوگیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور دو کپڑوں کا کفن دو اور خوشبو نہ لگاؤ نہ سر ڈھکو، کیونکہ قیامت میں یہ اٹھایا جائے گا۔ ایوب نے کہا کہ (یعنی) تلبیہ کہتے ہوئے (اٹھا یا جائے گا) اور عمرو نے (اپنی روایت میں يلبي کے بجائے) ملبیا کا لفظ نقل کیا۔ (یعنی لبیك کہتا ہوا اٹھے گا)
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ محرم مر جائے تو اس کا احرام باقی رہے گا۔ شافعیہ اور اہلحدیث کا یہی قول ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA): A man fell from his Mount and died while he was with the Prophet (ﷺ) at 'Arafat. The Prophet (ﷺ) said, "Wash him with water and Sidr and shroud him in two pieces of cloth and neither perfume him nor cover his head, for he will be resurrected on the Day of Resurrection saying, 'Labbaik'." ________