تشریح:
(1) جنازے کے لیے قیام کی یہ دوسری قسم ہے جسے امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں بیان کیا ہے کہ جنازے کے ہمراہ جانے والوں کے لیے کیا حکم ہے؟ امام بخاری ؒ نے اس سلسلے میں حدیث پیش کی ہے کہ جو جنازے میں شرکت کرے وہ اس وقت تک نہ بیٹھے جب تک کہ جنازہ رکھ نہ دیا جائے۔ عنوان میں جنازہ رکھنے کو مقید کیا ہے کہ اسے لوگوں کے کندھوں سے اتار کر رکھ دیا جائے۔ گویا امام ؒ نے سنن ابی داود کی روایت کو ترجیح دی ہے جس کے الفاظ ہیں کہ جب تم جنازے کے پیچھے چلو تو اس وقت تک نہ بیٹھو تاآنکہ اسے زمین پر رکھ دیا جائے۔ (سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3173) اگرچہ بعض روایات میں قبر میں رکھنے کا بھی ذکر ہے، لیکن امام ابو داود ؒ نے اس روایت کو مرجوح قرار دیا ہے، نیز راوی حدیث سہیل بن ابی صالح کا عمل بایں الفاظ بیان ہوا ہے کہ وہ اس وقت تک نہ بیٹھتے تھے جب تک جنازہ کندھوں سے اتار نہ دیا جاتا، یعنی اسے زمین پر رکھ دیا جاتا۔ دیگر روایات سے بھی اس موقف کی تائید ہوتی ہے۔ حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ہم نے کبھی رسول اللہ ﷺ کو نہیں دیکھا کہ آپ کسی جنازے میں شریک ہوں اور جنازہ رکھے جانے سے قبل بیٹھ گئے ہوں۔ (سنن النسائي، الجنائز، ص: 1919) (2) ہمارے نزدیک جنازے کے لیے قیام کی یہ دوسری قسم بھی منسوخ ہے، کیونکہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جنازوں کے ساتھ کھڑے رہتے جب تک انہیں رکھ نہ دیا جاتا اور آپ کے ساتھ لوگ بھی کھڑے رہتے، پھر اس کے بعد آپ نے بیٹھنا شروع کر دیا اور لوگوں کو بھی بیٹھنے کا حکم دیا۔ (السنن الکبریٰ للبیيقي: 27/4) اس کی وضاحت ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس وقت تک کھڑے رہتے جب تک جنازے کو لحد میں نہ رکھ دیا جاتا، پھر ایک یہودی عالم کا گزر ہوا تو اس نے کہا کہ اس طرح تو ہم کرتے ہیں، تب نبی ﷺ نے بیٹھنا شروع کر دیا اور فرمایا کہ تم بھی بیٹھا کرو اور ان کی مخالفت کرو۔ (سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3167) علامہ البانی ؒ نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا ہے۔ (أحکام الجنائز، حدیث: 77، 78)