تشریح:
(1) جنازے کو جلدی لے جانے سے مراد دوڑنا نہیں بلکہ عادت سے زیادہ تیز چلنا ہے۔ علماء کے نزدیک ایسا کرنا مستحب ہے، بلکہ پروقار طریقے سے جلدی کی جائے، تیز بھاگنے میں کسی غیر متوقع حادثے کا اندیشہ ہے۔ اس سے یہ بھی مراد ہو سکتا ہے کہ مرنے کے بعد اس کی تکفین میں جلدی کی جائے۔ (2) البتہ طاعون زدہ، فالج کے مریض اور غشی طاری ہونے سے مرنے والے کے متعلق جلدی نہ کی جائے جب تک اس کے مرنے کی تسلی نہ ہو جائے۔ حافظ ابن حجر ؒ نے کم از کم ایک دن اور ایک رات انتظار کرنے کا لکھا ہے۔ (فتح الباري: 236/3) لیکن انتظار کی مذکورہ تحدید محل نظر ہے۔ صرف موت کے وقوع کا یقین ہونا ضروری ہے، خواہ چند گھنٹوں کے بعد ہو جائے۔ بہرحال مرنے کے بعد میت کو زیادہ دیر تک رکھنا درست نہیں اور جنازہ اٹھا کر جلدی جلدی چلنا مستحب ہے۔ اس پر علمائے امت کا اتفاق ہے۔ والله أعلم۔