تشریح:
اس حدیث کا تقاضا ہے کہ قبر کو سجدہ گاہ بنانا منع ہے جبکہ عنوان کا حاصل یہ ہے کہ قبر پر مسجد بنانا حرام ہے۔ ان دونوں کے درمیان تغایر ہے، لیکن یہ دونوں مفہوم لازم و ملزوم ہیں، اس لیے ان میں تغایر کی کوئی حیثیت نہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ میری قبر کو عید مت بنانا۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث:2042) عید بنانے سے مراد یہ ہے کہ معین اوقات اور معروف موسموں میں عبادت کے لیے قبر کے پاس جانا اور وہاں جشن کا سا سماں پیدا کرنا۔ اس خطرے کے پیش نظر رسول اللہ ﷺ کو حضرت عائشہ ؓ کے گھر میں دفن کیا گیا ہے اور آپ کی قبر کو کھلا نہیں رکھا گیا۔ جب مسجد کی توسیع کی گئی اور حجرہ شریف کو مسجد میں شامل کر دیا گیا تو حجرہ شریف کو مثلث، یعنی تکونی شکل میں بنا دیا گیا تاکہ استقبال کی صورت میں قبر کی طرف سجدہ نہ ہو۔ چونکہ رسول اللہ ﷺ کی قبر مبارک روئے زمین کی تمام قبروں سے افضل ہے، جب اسے عید بنانے سے منع کر دیا گیا ہے تو دوسری کسی بھی قبر کو عید بنانا بالاولی ممنوع ہوا، لیکن افسوس کہ آج کا نام نہاد مسلمان اس فرمان نبوی کی کھل کر مخالفت کر رہا ہے۔ أعاذنا الله منه۔ اللہ کا شکر ہے کہ حکومت سعودیہ نے ابھی تک اس پر کنٹرول کر رکھا ہے۔ زادها الله عزا و شرفا۔